’سندھ میں دس لاکھ سے زائد افراد احساس پروگرام سے محروم‘

کرونا (کورونا) وائرس کے باعث لک ڈاؤن سے متاثرہ مستحقین میں احساس پرواگرام کے تحت امداد کی تقسیم سے صوبہ سندھ کے دس لاکھ افراد کے محروم رہ جانے کا انکشاف ہوا ہے۔

سندھ کے ان خانہ بدوشوں کی اکثریت کے پاس نہ تو قومی شناختی کارڈ ہیں او رنہ ہی موبائل  فون 

کرونا (کورونا) وائرس کے باعث لاک ڈاؤن سے متاثرہ مستحقین میں احساس پرواگرام کے تحت امداد کی تقسیم سے صوبہ سندھ کے دس لاکھ افراد کے محروم رہ جانے کا انکشاف ہوا ہے۔

وزیراعظم پاکستان کے احساس کفالت پروگرام (سابقہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام) کے تحت ان افراد میں امدادی رقوم تقسیم کی جا رہی ہے جو لاک ڈاؤن سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔

صوبہ سندھ کے ان دس لاکھ افراد کو قومی شناختی کارڈ نہ ہونے کے باعث احساس کفالت پروگرام میں شامل نہیں کیا گیا ہے۔

وزیراعظم احساس کفالت پروگرام کے ایمرجنسی کیش پروگرام میں شامل ہونے کے لیے قومی شناختی کارڈ کے نمبر کا اندراج کرنا ضروری ہے۔

ملک بھر میں ایمرجنسی کیش پروگرام کے تحت مستحقین میں فی گھرانا 12 ہزار روپے کی امدادی رقوم کی تقسیم کا سلسلہ جاری ہے۔

 گذشتہ تین دہایوں سے مذہبی اقلیت ہندوؤں کی قومی اور صوبائی اسمبلی میں نمائندگی کرنے والے پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اور وزیراعلیٰ سندھ کے اقلیتی امور پر معاون خصوصی ڈاکٹر کھٹو مل جیون نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ہندو پاکستان کی سب سے بڑی مذہبی اقلیت ہیں جن کی اکثریت زریں سندھ میں مقیم ہے۔ ہندوؤں کی کئی ذاتیں جپسی، نومیڈ یا خانہ بدوش ہیں، جن کے قومی شناختی کارڈ نہیں بنے ہوئے۔ میرے اندازے میں سندھ میں دس لاکھ ایسے ہندو اور مسلمان خانہ بدوش ہیں جن کے شناختی کارڈ نہیں بنے تو اس طرح وہ احساس کفالت پروگرام سے باہر ہیں۔‘

سندھ کے سودیشی ہندوؤں کے کئی ذاتیں بشمول کوچڑے، جوگی، شکاری، کبوترے، بھیل، کولھی، میگھواڑ یا مینگھواڑ، لوہار یا کاریا، واگھڑے، راوڑے، گواریا، باگڑی، اوڈ، سامی، گُرگلا، ریباری، جنڈاوڑا، کوکڑی، ہڈوال، مچھلا، اور کئی دیگر ذاتیں غریب ترین سمجھی جاتیں ہیں اور ہندو مت کے نام نہاد ذات پات کے نظام میں انھیں نچلے ذات، اچھوت، دلت کہا جاتا ہے جسے حکومت پاکستان بھی شیڈول کاسٹ کا نام دے کر سرکاری طور پر انھیں دلت مانتی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان میں کچھ ذاتیں کسی جگہ پر مستقل مقیم ہوگئی ہیں اور وہ تعلیم لینے کے ساتھ اچھی زندگی گزار رہی ہیں مگر اب بھی زیادہ تر ذاتیں بھٹکتی نسلوں کی مانند اس جدید دور میں بھی خانہ بدوشی کی زندگی گزار رہی ہیں اور وہ ایک جگہ سے دوسری جگہ محو سفر رہتی ہیں۔

ڈاکٹر کھٹو مل جیون کے مطابق: ’آپ کراچی سے کسی بھی سمت نکلیں، چاہے سپرہائی وے، انڈس ہائی وے، قومی شاہراہ یا پھر رابطہ سڑکوں پر جائیں تو آپ کو  ان راستوں کے دونوں اطراف عارضی جھگیوں یا گدھے گاڑیوں پر سامان رکھے نظر آتے ہیں۔‘

سندھ کے ان خانہ بدوشوں کی اکثریت کے پاس نہ تو قومی شناختی کارڈ ہیں او رنہ ہی موبائل  فون ، وہ انٹرنیٹ بھی استعمال نہیں کرتے۔

حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کے لیبر ونگ سندھ کے سیکرٹری جنرل اور ہیومین رائٹس کمیشن آف پاکستان کے رضاکار سرون کمار بھیل رضاکارنہ طور پر سندھ کے اضلاع میرپور خاص، ٹنڈوالہیار اور مٹیاری کے ایسے خانہ بدوشوں کی بستیوں میں جاکر احساس کفالت پرگرام میں رجسسٹر کروانے میں مدد کرتے ہیں۔

سرون کمار بھیل نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ان اضلاع میں ہم نے چار ہزار سے زائد گھرانوں کو کفالت پروگرام میں رجسٹرڈ کروایا ہے۔ اس سروے کے دوران میرا اندزہ ہے کہ ان اضلاع میں ایک لاکھ سے زائد لوگوں کے پاس قومی شناختی کارڈ نہیں ہے اور وہ اس امداد کے اہل نہیں ہیں۔‘

سرون کمار بھیل کے مطابق ان میں اکثریت سودیشی ہندو ذاتوں کی ہے اور وہ بھی خانہ بدوشوں کی جو اکثر ایک جگہ سے دوسری جگہ محو سفر رہتے ہیں۔

’ان غریب ترین خانہ بدوشوں کا شناختی کارڈ بننا اب تقریباً ناممکن ہوگیا ہے جس کی وجہ ایک تو نادرا کے سخت ترین قوانین، جن میں خاندان کے کسی فرد کا قومی شناختی کارڈ ہونا ضروری اور پھر 17 گریڈ کے افسر کی تصدیق مانگی جاتی ہے جو ان خانہ بدوشوں کے لیے ناممکن ہے۔ اس لیے اب یہ لوگ امداد نہیں لے سکیں گے۔‘

آٹھ اضلاع پر مشتمل شمالی سندھ کے ضلع خیرپور کے رہائشی سماجی رہنما انجینئر رمیش راجا نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’شمالی سندھ میں دلت ہندوؤں میں میگھواڑ، بھیل اور اوڈ ذاتوں کی اکثریت ہے۔ ان میں سے صرف سکھر ضلع میں 30 ہزار اور خیرپور میں 25 ہزار آباد ہیں اور ان میں 50 فیصد لوگوں کے قومی شناختی کارڈ نہیں بنے ہوئے ہیں۔‘

شناختی کارڈ نہ بننے کی وجہ جاننے کے لیے جب انڈپینڈنٹ اردو نے پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما، بلاول ہاؤس کراچی کے میڈیا سیل کے انچارج اور رکن سندھ اسمبلی سُریندر والاسائی سے رابطہ کیا اور پوچھا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی سندھ میں کئی سالوں سے حکومت ہے اس کے باوجود اتنی بڑے تعداد میں لوگوں کے شناختی کارڈ کیوں نہیں بنوائے گئے؟

اس پر ان کا کہنا تھا کہ ’عام طور پر جب لوگ ایک جگہ پر مقیم ہوتے ہیں تو اس محلے میں سے ایک بندہ آگے بڑھتا ہے اور دیگر لوگوں کی مدد کرکے شناختی کارڈ بنواتا ہے مگر چونکہ یہ لوگ خانہ بدوش ہیں تو اس لیے ان کے شناختی کارڈ ابھی تک بن نہیں سکے۔ ویسے ان لوگوں کا حق ہے اور ان کے شناختی کارڈ بننے چاہیے۔‘

سُریندر والاسائی کے مطابق سندھ کی بہت سی کمیونٹیوں کے شناختی کارڈ نہیں بنے ہیں۔ جن میں اکثریت ہندو ذاتوں کی ہے اور وہ بھی اکثر خانہ بدوش ہیں۔ جب کبھی بھی امداد بانٹنے کا مرحلہ آتا ہے تب پتہ چلتا ہے کہ ان لوگوں کے تو شناختی کارڈ ہی نہیں بنے۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان