ہسپتالوں کی خبریں لانے والی صحافی جو ہر وقت کرونا رسک پر ہیں

صحافت میں آج کل ہیلتھ بیٹ کے رپورٹر سب سے زیادہ رسک پر ہیں۔ انہیں 24 گھنٹے مختلف ہسپتالوں کے اعدادوشمار بھی مہیا کرنے ہوتے ہیں اور اچانک کسی وقت کوئی خبر بن جائے تو فوری وزٹ بھی کرنا ہوتا ہے۔

کرونا (کورونا) وائرس کی وبا جب چاروں طرف پھیلی ہوئی ہے اور ہم سب لاک ڈاؤن کے دوران اپنے اپنے گھروں میں بیٹھ کے چھٹیاں گزار رہے ہیں یا ورک فرام ہوم پر ہیں تو ایسے میں ایک شعبہ ایسا ہے جو چوبیس گھنٹے آپ تک خبریں بھی پہنچاتا ہے اور اس کا کیا گیا کام کسی کو نظر بھی نہیں آتا۔

میڈیا کا لفظ انفرادی طور پر تو سب جانتے ہیں لیکن میڈیا کو چوبیس گھنٹے متحرک اور باخبر رکھنے کا فرض یہی رپورٹر ادا کرتے ہیں جو مختلف شعبوں کی کوریج کر رہے ہوتے ہیں۔

کچھ صحافیوں کے ذمے ڈیوٹی ہوتی ہے کہ وہ سیاست دیکھیں گے، کچھ کرائم رپورٹنگ کرتے ہیں، تھانے کچہریوں کے چکر ان کے ذمے ہوتے ہیں، پرانے وقتوں میں شوبز رپورٹر بھی ہوتے تھے، اب ان کی تعداد کم ہے، سپورٹس کی خبریں دیکھنے والے رپورٹر الگ ہوتے ہیں، عدالت، قومی اسمبلی، خارجہ معاملات غرض ہر شعبے کی معلومات وہاں سے ٹی وی چینلز تک یا اخباروں تک انہی رپورٹرز کے توسط سے آتی ہے اور پھر آپ سب تک پہنچتی ہے۔

انہی شعبوں میں ایک شعبہ ایسا ہے جس سے تعلق رکھنے والے رپورٹر آج کل سب سے زیادہ رسک پر ہیں۔ وہ شعبہ صحت سے متعلق صحافیوں کا ہے۔ انہیں 24 گھنٹے مختلف ہسپتالوں کے اعدادوشمار بھی چاہیے ہوتے ہیں اور اچانک کسی بھی وقت کوئی خبر بن جائے تو فوری وزٹ بھی کرنا ہوتا ہے۔

دعا مرزا اس وقت ایک نجی ٹی وی چینل کے ساتھ وابستہ ہیں اور وہاں ہیلتھ بیٹ کے ساتھ ایجوکیشن بیٹ بھی ان کے پاس ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

وہ چار سال سے صحافت میں ہیں اور اس سے پہلے مختلف ٹی وی چینلز پر بطور رپورٹر کام کرنے کا تجربہ ان کے پاس موجود ہے۔

دعا حافظ قران بھی ہیں اور انہوں نے صحافت میں ایم اے بھی کر رکھا ہے۔

دعا خود موٹرسائیکل چلا کر فیلڈ میں جاتی ہیں اور رپورٹنگ کرتی ہیں۔ 

وہ میڈیا میں اپنے شوق سے آئیں اور اب تک اسے ہر ممکن طریقے سے پورا کر رہی ہیں۔ 

دعا کا کہنا ہے کہ میڈیا انڈسٹری کے موجودہ حالات میں مالی مسائل کے باعث کام کرنا بہت مشکل ہو چکا ہے، انہیں فیملی کی طرف سے بھی اسی وجہ سے کوئی اور جاب کر لینے کا کہا جاتا ہے لیکن وہ ساتھ ساتھ او لیول کے بچوں کو ٹیوشن پڑھاتی ہیں تاکہ انہیں اس قسم کا کوئی مسئلہ نہ ہو۔

بطور ہیلتھ بیٹ رپورٹر انہیں ہسپتالوں کا دورہ بھی کرنا پڑتا ہے اور پریس کانفرنسیں بھی اٹینڈ کرنا پڑتی ہیں۔

جب ان سے حفاظتی اقدامات کے بارے میں سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ صحافیوں کے پاس حفاظتی سامان یا این 95 ماسک اب تک نہیں ہیں اور وہ ہر پریس کانفرنس یا پبلک مقامات پر جانے کے بعد کرونا سے متاثر ہونے کے رسک پر ہوتی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ لوگ اس معاملے کو سنجیدہ نہیں لے رہے۔ احتیاط مسئلے کا حل ہے لیکن کوئی اس پر تیار نہیں۔ وہ کہیں بھی سٹوری کے لیے جائیں تو نہ صرف ان کے پاس بلکہ کیمرہ مینز اور ڈرائیوروں کے پاس تک بھی ماسک نہیں ہوتے۔

ان کا کہنا تھا کہ اب وسائل کم ہیں کام زیادہ ہے لیکن اس وقت قومی صورت حال کا تقاضا یہی ہے کہ جتنا ممکن ہو سکے ایمانداری سے کام کیا جائے اور لوگوں کو صورت حال سے باخبر رکھا جائے۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان