دور کے ڈھول سہانے

کرونا کی وبا نے پاکستان سمیت دنیا بھر کے نام نہاد اچھے حکمرانوں کو باور کرایا کہ اچھی طرزِ حکمرانی صرف لکیر کے فقیر بننے اور عوام کو بڑے بڑے خواب دکھانے کا نام نہیں بلکہ ملک کے تمام اداروں کو ایک ہی جسم کے مختلف اعضا کی طرح مل جل کر کام کرنا ہوتا ہے۔

وفاقی اور بلوچستان حکومت کی بد انتظامی اور مجرمانہ غفلت کی وجہ سے  تفتان میں  قرنطینہ سینٹر ملک بھر میں کرونا کا  مرض کو پھیلانے کا سبب بنا۔(فائل تصویر: اے ایف پی)

مثل مشہور ہے کہ دور کے ڈھول سہانے ہوتے ہیں یعنی دور سے اکثر چیزیں زیادہ بھلی اور خوبصورت معلوم ہوتی ہے، جب تک آپ کسی چیز کے قریب جاکر اسے پرکھ نہ لیں۔

مثال کے طور پر کسی بھی شہر کے مضافات سے جب آپ دور دراز پہاڑوں کو دیکھتے ہیں تو وہاں جانے اور انہیں قریب سے دیکھنے کو دل مچلتا ہے، وہاں کے سرسبز درخت زندگی کی نشانی لگتی ہے مگر جب بندہ پہاڑ پر چڑھتا ہے تو انہیں جنگل اور جھاڑیوں کے کانٹوں سے الجھنا پڑتا ہے، پہاڑی رستے کی تھکاوٹ اسے ہلکان کرتی ہے اور نوکیلے پتھر پاؤں زخمی کرتے ہیں تب احساس ہوتا ہے کہ یہ پہاڑ اتنے بھی خوبصورت نہیں جتنا ہم اسے سمجھتے ہیں۔

یہی حال ترقی یافتہ ممالک، ان کے نظامِ زندگی اور وہاں کے حکمرانوں کا ہے۔ پاکستان میں بیٹھ کر ہم میں سے اکثر لوگ یورپ و امریکہ کی مثالیں دیتے ہیں اور وہاں کی ترقی کو رشک کی نظروں سے دیکھتے ہیں۔ اپنے حکمرانوں کو گالیاں دیتے اور ان کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے، مگر بھلا ہو کرونا وائرس کا، جس نے دنیا بھر میں اچھی طرزِ حکمرانی کا پول کھول دیا۔

ایسا لگتا ہے کہ اس وبا نے پاکستان سمیت دنیا بھر کے نام نہاد اچھے حکمرانوں کو بے نقاب کیا اور انہیں باور کرایا کہ اچھی طرزِ حکمرانی صرف لکیر کے فقیر بننے اور عوام کو بڑے بڑے خواب دکھانے کا نام نہیں بلکہ اس میں ملک کے تمام اداروں کو ایک ہی جسم کے مختلف اعضا کی طرح مل جل کر کام کرنا ہوتا ہے تاکہ ملک کے تمام ادارے بحیثیت مجموعی نہ صرف اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ براں ہوسکے بلکہ ان سب کی کوششوں کا مقصد و محور اس ملک کے شہریوں کی بھلائی بھی ہو۔

ہم میں سے بیشتر پاکستانی عام طور پر یورپ اور امریکہ کے نظام صحت و تعلیم کو بہت بہتر سمجھتے ہیں، وہاں کے حکمرانوں کو عوام کے سامنے جوابدہ اور بروقت صحیح فیصلے کرنے کا اہل سمجھتے ہیں، مگر کرونا وائرس نے ہمیں بتا دیا کہ دنیا اصل ترقی سے ابھی کوسوں دور ہے۔ وہ ترقی جس کا پیمانہ معیشت، اقتصاد، روزگار، ایٹم اور خلائی مشنز کی بجائے انسان کا اطمینان، صحت، خوشی اور سکون ہو۔ کرونا وائرس نے بتا دیا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انسانی قدو قامت میں کمی کے علاوہ ان کے کردار اور قدکاٹھ میں بھی کمی واقع ہوئی ہے۔

دنیا کو اس وقت حقیقت میں قحط الرجال کی صورت حال کا سامنا ہے۔ کوئی ایسا لیڈر دکھائی نہیں دیتا، جو دنیا تو درکنار اپنے ہی ملک کی رہنمائی کر تے ہوئے اس کی منجدھار میں پھنسی کشتی کو پار لگا دے۔ ایسا لگتا ہے دنیا نے لیڈروں کو جننا چھوڑ دیا ہے۔ اب کوئی گاندھی جی، نیلسن منڈیلا، مارتھن لوتھر کنگ، جارج واشنگٹن، نپولین بونا پاٹ، قائد اعظم محمد علی جناح، ذولفقار علی بھٹو اور باچا خان پیدا نہیں ہوگا۔ اب بدقسمتی سے دنیا کی بھاگ دوڑ ڈونلڈ ٹرمپ، محمد بن سلمان، کم جانگ ان، بورس جانسن، نریندر مودی اور عمران خان جیسے غیرسنجیدہ رہنماؤں کے ہاتھ میں ہے، جن کی صلاحیتیں دنیا کو کرونا کی مشکلات سے نکالنے کے لیے ناکافی ہیں۔

جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے۔ یہاں کی صورت حال بھی دنیا سے زیادہ مختلف نہیں۔ دسمبر 2019 میں چین کے شہر ووہان میں کرونا کی وبا شروع ہوئی اور اس نے دنوں اور ہفتوں کے حساب سے دنیا میں پھیلنا شروع کیا۔ جنوری کے آخر میں عالمی ادارہ صحت نے دنیا کو خبردار کردیا کہ اس وبا سے بچنے کے لیے کون کون سے ضروری اقدامات ناگزیر ہیں۔تائیوان، سنگاپور، آئیس لینڈ اور جنوبی کوریا  جیسے چند ممالک نے فوری اقدامات اٹھائے اور خود کو کافی سے زیادہ اس وبا سے محفوظ کرلیا۔ مگر چین کے ساتھ سینکڑوں میل لگے بارڈر اور سی پیک جیسے پراجیکٹ میں شراکت داری اور بے تحاشا آمد ورفت کے باوجود پاکستانی حکمران دو ماہ تک خواب غفلت میں پڑے رہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے دنیا کے ساتھ اپنی آمد و رفت اور اس سے کرونا کا پھیلاؤ روکنے کے لیے اقدامات کو صرف دعؤوں تک محدود رکھا، یہی وجہ ہے کہ حکومت کے تمام تر دعوؤں کے باوجود ہوائی اڈوں اور زمینی سرحدی راستوں پر سکریننگ کا کوئی جامع نظام لاگو نہیں کیا گیا۔ جس کی وجہ سے 26 فروری کو ایران سے آنے والے شخص میں کرونا وائرس کی تصدیق ہوگئی۔ اس کے باوجود حکومت فوری رسپانس دینے اور مزید کرونا مریضوں کی بیرون ملک سے آمد روکنے میں ناکام رہی۔

اس ایک ہفتے میں نہ صرف لندن، متحدہ عرب عمارات اور شام سے سینکڑوں افراد سفر کرکے پاکستان میں داخل ہوئے بلکہ 28 فروری کو ایران کے ساتھ چند دن پہلے بند کی گئی سرحد  دوبارہ کھول کر ایک ساتھ کم و بیش پانچ سو زائرین کو پاکستان آنے کی اجازت دی گئی۔ جس کی تعداد چند دن میں پانچ ہزار افراد تک پہنچ گئی۔ اگرچہ ان میں سے کچھ زائرین کو ابتدائی سکریننگ کے بعد براہ راست گھروں کو جانے کی اجازت دی گئی جبکہ زیادہ تر افراد کو سرحدی علاقے تفتان میں قرنطینہ سینٹر میں رکھا گیا، مگر وفاقی اور بلوچستان حکومت کی بد انتظامی اور مجرمانہ غفلت کی وجہ سے یہی قرنطینہ سینٹر ملک بھر میں مرض کو پھیلانے کا سبب بنا۔ کیونکہ یہاں زائرین کو قرنطینہ اصولوں اور طبی ماہرین کی ہدایات کے برعکس ایک ہی احاطے میں مناسب صفائی اور حفاظتی اقدامات کے بغیر رکھا گیا، جس کی وجہ سے چند مریضوں کی بیماری مزید سینکڑوں افراد اور ملک کے تمام علاقوں کو منتقل ہوگئی۔

حکومت کی بد انتظامی کا یہ حال رہا کہ تمام تر عالمی  صورت حال اور کرونا کے پھیلاؤ کے شدید خدشات کے باوجود مارچ کے پہلے ہفتے میں تبلیغی مرکز رائیونڈ میں ایک لاکھ سے زیادہ افراد کو کئی دن تک جمع ہونے اور ایک ساتھ رہنے کی اجازت دی گئی۔اور جب یہ لوگ ملک کے کونے کونے میں دعوت و تبلیغ کے لیے پھیل گئے۔ تب حکومت کو احساس ہوا، مگر اس وقت تک پانی سر سے گزر چکا تھا۔

ملک میں بیماری کے اس یکمشت پھیلاؤ کے باوجود سندھ حکومت کے علاوہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں ملک میں سخت لاک ڈاؤن کرنے اور عوام کو گھروں تک محدود کرنے میں ناکام رہیں۔ بعض وفاقی وزرا سندھ حکومت کے اقدامات کا مذاق اڑاتی رہے اور آج صورت حال یہ ہے کہ ملک میں کرونا مریضوں کی تعداد 14 ہزار اور اموات 300 کے قریب جاپہنچیں، مگر حکومت علماء سمیت مختلف طبقہ فکر کے سامنے بے بس نظر آتی ہے اور ملک  بھر کے طبی ماہرین کے بار بار خبردار کرنے اور مکمل لاک ڈاؤن کی سفارش کرنے کے باوجود حکومت لیت ولعل سے کام لے رہی ہے۔

ایسا لگتا ہے کہ حکومت کی قوت فیصلہ جواب دے چکی ہے اور حکمرانوں نے عوام کو کرونا کے خودرو  پھیلاؤ کے لیے اللہ تعالی کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ عوام خود کتنا باشعور ہونے اور پھیلاؤ روکنے میں مددگار ہوتے ہیں اور حکومت کب تک ڈاکٹروں کی سفارشات کو نظر انداز کرنے کی متحمل ہوسکتی ہے۔ اللہ کرے کہ طبی ماہرین کے خدشات غلط ثابت ہوں اور پاکستان کو یورپ و امریکہ جیسی صورت حال کا سامنا نہ کرنا پڑے، ورنہ ڈونلڈ ٹرمپ اور بورس جانسن کی طرح عمران خان کی صلاحیتوں کا پول بھی کھل جائے گا۔

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ