کیا پاکستان عالمی امداد کے لیے زیادہ کرونا کیسز دکھا رہا ہے؟

انڈپینڈنٹ اردو نے اس مفروضے کے حوالے سے ماہرین سمیت حکومتی نمائندوں سے بات کی ہے تاکہ جان سکیں کہ کیا واقعی حکومتِ پاکستان مالی امداد کے لیے کیسز کو بڑھا چڑھا کر دکھا رہی ہے؟

کراچی میں لاک ڈاؤن کے دوران ایک ریستوراں کا عملہ احتیاطی تدابیر کے ساتھ کام کر رہا ہے (اے ایف پی)

جب سے دنیا میں کرونا (کورونا) وبا پھیلی ہے اس کے ساتھ ہی مخلتف 'سازشی' مفروضے بھی گردش کر رہے ہیں۔

انہی مفروضوں میں ایک یہ بھی ہے کہ پاکستان میں کرونا کیسز اور ان سے اموات کی شرح قصداً زیادہ بتائی جا رہی ہے تاکہ بیرون ممالک سے امداد حاصل کی جا سکے۔

ہم نے اس مفروضے کے حوالے سے ماہرین سمیت حکومتی نمائندوں سے بات کی تاکہ جان سکیں کہ کیا واقعی حکومتِ پاکستان بیرون ممالک اور عالمی اداروں سے مالی امداد حاصل کرنے کے لیے کیسز کو بڑھا چڑھا کر دکھا رہی ہے؟

پشاور یونیورسٹی کے شعبہ معاشیات سے وابستہ پروفیسر ذلاکت خان نے انڈپیںڈںٹ اردو کو بتایا کہ کسی بھی ملک کو کرونا جیسی وبا کی صورت میں بیرون ممالک کی امداد کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ ترقی پزیر ملک اس قسم کے اچانک معاشی دھچکے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔

انہوں نے بتایا کہ بیرون ممالک اور اداروں جیسے عالمی بینک یا ایشین ترقیاتی بینک سے ملنے والی امداد سے حکومتوں کو وقتی فائدہ ضرور ہوتا ہے۔

'اس امداد سے کسی بھی ملک کی معیشت کو ایک خاص حد تک تو سہارا تو مل سکتا ہے تاہم کرونا وبا کی وجہ سے جو نقصان پاکستان اور دنیا کے دیگر ممالک کو اٹھانا پڑ رہا ہے، اس صورتحال میں معیشت کو دوبارہ کھڑا کرنے میں بہت وقت درکار ہو گا۔'

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے ان سازشی مفروضوں کو 'بچگانہ' قرار دیا کہ کوئی ملک مالی امداد کے لیے کیسز یا اموات کی شرح بڑھا چڑھا کر بیان کرے۔

انہوں نے سوال کیا کہ اگر حکومت قصداً کیسز زیادہ بیان کرنا چاہتی تو پھر اتنے بڑے بڑے کاروباری مراکز کیوں بند ہیں جس سے ملک کی معیشت پر برے اثرات مرتب ہو رہے ہیں؟

'یہ ایک وبا ہے جس سے پوری دنیا لڑ رہی ہے اور اس وبا نے دنیا کی معیشتوں پر بہت منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ ہماری عوام کو یہ بات سمجھ آئے گی تب ہی ہم اس وبا کا مقابلہ کر سکیں گے۔'

پاکستانی معیشت پر کرونا وبا کے اثرات کے حوالے سے اقتصادی امور کے ماہر صحافی مبارک زیب نے انڈپیںڈنٹ اردو کو بتایا کہ پاکستان کی شرح نمو منفی جا رہی ہے اور ملک میں معیشت کی صورت حال سقوط ڈھاکہ کے بعد کے معاشی بحران کی طرح ہونے کا خدشہ ہے۔

انھوں نے بتایا کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے معاشی طور پر ملک کے ہر سیکٹر کو نقصان پہنچا، جس کی وجہ سے روزگار سمیت شرح نمو پر برے اثرات مرتب ہور ہے ہیں۔

اگر صوبہ خیبر پختونخوا کی بات کریں تو صوبائی حکومت کی معیشت پر پڑنے والے اثرات کے حوالے سے رپورٹ میں، جس کی کاپی انڈپینڈنٹ اردونے دیکھی ہے، لکھا ہے کہ صوبے کو 45 دن کے لاک ڈاؤن سے تقریباً60  ارب روپے کا نقصان پہنچا اور اس سے 27  لاکھ افراد کے بے روزگار ہونے کا خدشہ ہے۔

اسی طرح صوبائی سیاحت کے حوالے سے ورلڈ بینک کی ویب سائٹ پر شائع ایک رپورٹ کے مطابق خیبر پختونخوا میں لاک ڈاؤن کی وجہ سے اس شعبے کو تقریباً تین ارب روپے کا نقصان ہو سکتا ہے کیوں کہ گذشتہ سال سے صوبے میں سیاحوں کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوا تھا لیکن اس سال سیاحتی مقامات بند ہونے کی وجہ سے صوبے کو مالی نقصان اٹھانا پڑے گا۔

اعداد و شمار کیا کہتے ہیں؟

اس سازشی مفروضے کو مزید جانچنے کے لیے ہم نے پاکستان میں اموات کی شرح کا دیگر ممالک کے ساتھ تقابلی جائزہ لیا، جس میں کرونا سے سب سے زیادہ متاثرہ پہلے پانچ ممالک میں اموات کی شرح پاکستان سے دگنی اور تین گنا زیادہ ہے۔

سب سے زیادہ متاثرہ ملک امریکہ میں اموات کی شرح پانچ فیصد سے زیادہ، دوسرے نمبر پر اٹلی میں 13 فیصد، سپین میں 10 فیصد، فرانس میں14  فیصد، برطانیہ میں تقریباً 16 فیصد جبکہ پاکستان میں اب تک ہونے والی اموات کی شرح 2.1 فیصد ہے۔

اسی طرح ہمسایہ ملک بھارت میں کرونا وائرس سے اموات کی شرح3.2  فیصد ہے۔

تجزیہ نگاروں کے مطابق ان اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستان میں اموات اب بھی دیگر ممالک سے بہت کم ہیں اور اگر حکومت قصداً اموات کی شرح زیادہ دکھا رہی ہوتی تو یہ شرح دو فیصد سے کہیں زیادہ ہوتی۔

خیبر پختونخوا کے وزیر صحت و خزانہ تیمور سلیم جھگڑا نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان اعداوشمار سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہم شاید زیادہ تو نہیں لیکن کم کیسز رپورٹ کر رہے ہیں کیوں کہ ہم اتنے ٹیسٹ نہیں کر رہے جتنے باقی ترقیاتی ممالک میں ہو رہے ہیں۔

'پاکستان میں اس وقت کرونا سے اموات کی شرح تقریباً دو فیصد ہے جو زیادہ تر ممالک کے مقابلے میں کم ہے جب کہ خیبر پختونخوا میں یہ شرح پانچ فیصد ہے۔

'ہو سکتا ہے ہمارے صوبے میں کیسز زیادہ ہوں اور باقی صوبوں میں کم ٹیسٹس کی وجہ سے زیادہ کیسز رپورٹ نہ ہو رہے ہوں۔ ہم ٹیسٹس کی استعداد کو بڑھا چکے ہیں اور کوشش کریں گے کہ اس کو مزید زیادہ کریں۔'

معیشت پر اثرات کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ پوری دنیا میں معیشتوں کو نقصان پہنچ رہا ہے اور اداروں کی جانب سے امداد بھی مل رہی ہے، وہ بھی اتنی زیادہ نہیں جو ہمارے صوبے کی معیشت پر کوئی زیادہ اچھا اثر ڈالے۔

'آئندہ مالی سال کے لیے صوبے کو تقریباً 50 سے 100  ارب روپے کی ضرورت ہوگی۔'

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت