ساجد حسین بلوچ: ایک خیال جو اپنے اختتام سے پہلے ٹوٹ گیا

مجھے خبر نہیں کہ کیا ان کے دونوں ناول مکمل ہو چکے ہیں یا نہیں لیکن ان کے ناولوں کے ابتدایہ کی طرح ان کی اپنی لاش دریا سے نکال کر ہسپتال لے جائی جا چکی ہے۔

ساجد حسین کافکا کے پرستار تھے اور کتابوں کے اتنہائی رسیا (سوشل میڈیا)

سویڈن کے دریا سے ملی لاش تھی تو ساجد حسین بلوچ کی لیکن یہ ہر اس شخص کی لاش ہے جو تحریر و تقریر کی آزادی اور دوسروں سے الگ دیکھنے، سوچنے اور کچھ کر گزرنے پر یقین رکھتا ہے۔

ساجد موت سے نہیں بھاگے بلکہ زندگی چھیننے والوں سے فرار ہو کر پہلے عمان گئے، پھر یوگنڈا، دبئی اور آخر میں سویڈن میں پناہ لی۔

رسم یہ نہیں تھی کہ کسی بلوچ ماں کے بیٹے کی لاش پرائے دیس کے کسی دریا سے ملے۔ تقریباً 15 سال سے تو یہی دیکھا اور سنا کہ کسی بلوچ کی لاش پہاڑوں یا پھر ان کی زندگیوں کی طرح بنجر اور چٹیل میدانوں سے ملی۔

 ہماری طرح ان کو بھی کسی نہ کسی دن زندگی کو الوداع کہنا تھا لیکن ساجد ایک خیال تھا جو بقول منٹو صاحب کے اپنے اختتام سے پہلے ٹوٹ گیا۔

وہ ایک ایسے شخص تھے جن کی آنکھوں میں کتاب کے حروف محو خواب تھے، کتابوں کے اتنے رسیا کہ کانوں سے بھی آڈیو بک سنتے رہتے اور انگلیوں کی پوروں سے اپنے خیالات کمپیوٹر پر منتقل کرتے رہتے۔

وہ کافکا کے پرستار تھے۔ انہوں نے کافکا کو محض ایک بار نہیں بلکہ بار بار پڑھا کیونکہ بقول ان کے کافکا کی تحریروں میں طنز سے بھرپور یاس پائی جاتی ہے کہ نہ چاہتے ہوئے بھی آپ کو مسکرانا پڑتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کے اپنے بھی کچھ خواب تھے جن کی تعبیر وہ اپنے دو ناولوں میں دیکھنا چاہ رہے تھے لیکن وہ خواب بھی ان کے ساتھ دریا برد ہوگئے۔

بلوچی کے کلاسیکی ادب میں جن بلوچ ہیروز کے بارے میں طویل تعریفی نظمیں لکھی گئی ہیں انہوں نے ساجد کو اپنے سحر میں اتنا گرفتار کر لیا تھا کہ وہ انہیں ایک ناول کی صورت میں سامنے لانا چاہ رہے تھے اور جس پر وہ کام شروع بھی کرچکے تھے۔

وہ چاکر رند، شاہ مرید، ہانی اور گہرام کے کرداروں کو اکیسویں صدی کی زبان اور ادراک میں پرونا چاہ رہے تھے۔

مگر وہ اپنے گردو پیش سے بھی غافل نہیں تھے۔ صحافت کرنے کے دوران انہوں نے اپنے ہم وطن، ہم قوم اور ہم قبیلہ لوگوں کو فوجی آپریشنوں اور بلوچ مزاحمت کاروں کی چکی کے دو پاٹوں میں پیستے ہوئے دیکھا تھا۔

 یہ المیہ ان کے دل و دماغ میں ایک درد کی صورت میں پیوست رہا۔ اسی درد کو انہوں نے انگریزی کے ناول میں کہانی کی صورت دینے تھی جس کا آغاز ایمبولینس میں ایک تشدد زدہ نوجوان کی لاش ہسپتال لے جانے سے ہوتی ہے۔

مجھے خبر نہیں کہ کیا ان کے دونوں ناول مکمل ہو چکے ہیں یا نہیں لیکن ان کے ناولوں کے ابتدایہ کی طرح ان کی اپنی لاش دریا سے نکال کر ہسپتال لے جائی جا چکی ہے۔ 

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ