کرونا وائرس: چین اور امریکہ میں کشیدگی سے تیل کی قیمتوں میں پھر کمی

امریکہ اور چین کے درمیان کشیدگی سے تیل کی قیمتوں میں استحکام کی ان امیدوں پر پانی پھر گیا جن کی دنیا بھر میں لاک ڈاؤن میں نرمی کے باعث توقع کی جا رہی تھی۔

کرونا وبا کے باعث کاروباری بندشوں اور سفری پابندیوں کی وجہ سے   گذشتہ ماہ امریکی خام تیل کی قیمت تاریخ میں پہلی بار منفی ریکارڈ کی گئی۔ (فائل تصویر: اے ایف پی)

کرونا (کورونا ) وائرس کے پھیلاؤ کے معاملے پر امریکہ اور چین کے درمیان ممکنہ سرد جنگ کے پیش نظر دو دن کے اضافے کے بعد بدھ کو تیل کی قیمتیں ایک مرتبہ پھر گراوٹ کا شکار ہو گئیں۔

خبر رساں ادارے  اے ایف پی کے مطابق اگرچہ ایشیائی مارکیٹ میں برینٹ کروڈ آئل کی قیمت 30 ڈالر فی بیرل سے زیادہ رہی تاہم امریکہ اور چین کے درمیان کشیدگی سے تیل کی قیمتوں میں استحکام کی ان امیدوں پر پانی پھر گیا جن کی دنیا بھر میں لاک ڈاؤن میں نرمی کے باعث توقع کی جا رہی تھی۔

بدھ کو ایشیائی مارکیٹس میں برینٹ کا بین الاقوامی بینچ مارک 1.1 فیصد کی کمی سے 30.63 ڈالر فی بیرل پر آ گیا۔

حالانکہ گذشتہ روز برینٹ کروڈ کی قیمت میں 14 فیصد کا اضافہ دیکھا گیا تھا جو اپریل کے وسط کے بعد پہلی مرتبہ 30 ڈالر فی بیرل سے اوپر چلا گیا تھا اور یہ تین ہفتوں کی بلند ترین سطح تھی۔

بدھ کو ہی کاروبار کے آغاز پر امریکی مارک ویسٹ ٹیکسس انٹرمیڈیٹ کی قیمت 1.9 فیصد کمی کے بعد 24.13 ڈالر فی بیرل تک گر گئی۔

کرونا وبا کے باعث کاروباری بندشوں اور سفری پابندیوں کی وجہ سے تیل کی منڈیوں کو تلاطم کا سامنا کرنا پڑا اور گذشتہ ماہ امریکی خام تیل کی قیمت تاریخ میں پہلی بار منفی ریکارڈ کی گئی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تاہم رواں ہفتے تیل کی قیمتوں میں استحکام دیکھنے کو ملا کیونکہ یورپ سے لے کر ایشیا تک کے ممالک نے لاک ڈاؤن اور سفری پابندیوں میں نرمی کردی ہے جس کے بعد معیشتیں دوبارہ بحالی کی طرف لوٹنا شروع ہو گئی ہیں۔

تاہم تیل کی قیمتوں کو اس وقت دھچکا لگا جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کرونا وبا کے پھیلاؤ کا الزام چین کے سرعائد کرتے ہوئے کہا کہ اس کی ذمہ دار ووہان کی لیبارٹری ہے۔

امریکہ کے الزامات کے بعد بیجنگ اور واشنگٹن کے درمیاں کشیدگی کی شدت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ صدر ٹرمپ کے بعد وزیر خارجہ مائیک پومپیو بھی آن ریکارڈ کہہ چکے ہیں کہ وہ اس وائرس کے چینی لیبارٹری سے لیک ہونے کے 'کافی شواہد' دیکھ چکے ہیں۔

دوسری جانب چینی حکام ان الزامات کو سختی سے مسترد کرتے ہیں۔ چینی حکام کا کہنا ہے کہ چین بھی کووڈ 19 سے متاثر ہے اور کوئی اس بارے میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ یہ وائرس کہاں سے شروع ہوا ہے۔

اس حوالے سے مغربی انٹیلی جنس ادارے 'فائیو آئیز' (جن میں آسٹریلیا، کینیڈا، نیوزی لینڈ، برطانیہ اور امریکہ شامل ہیں) کی حاصل کردہ معلومات کے مطابق چین نے اس وبا کے پھیلاؤ کو تسلیم کرنے سے پہلے اسے چھپانے اور طبی سامان کا اکٹھا کرنے کی کوشش کی تھی۔

تاہم چینی حکام اس بات پر زور دیتے ہیں کہ انہوں نے اس وبا کے بارے میں دنیا کو جتنا جلدی ہو سکتا تھا، آگاہ کر دیا تھا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا