مالیاتی کمیشن میں مشیر اور سیکرٹری خزانہ کی شمولیت قانونی ہے؟

قانونی ماہرین نے اس کمیشن کی تشکیل نو کو ماورائے آئین قراردیا ہے کیوں کہ ان کے خیال میں دو عہدیداروں کی شمولیت اور ان کے بعض اختیارات آئین سے متصادم ہیں۔

 کمیشن کی تشکیل نو میں وزیر خزانہ کی حیثیت سے وزیر اعظم عمران خان کو قومی مالیاتی کمیشن کا چیئرمین بنایا گیا ہے(اے ایف پی)

دسویں قومی مالیاتی کمیشن کی تشکیل کا نوٹیفکیشن صدر پاکستان کی جانب سے جاری کیا جا چکا ہے۔ یہ کمیشن صوبوں کے محاصل میں حصے اور ٹیکسوں کے امور کو طے کرتا ہے۔

اس کمیشن کی تشکیل نو میں وزیر خزانہ کی حیثیت سے وزیر اعظم عمران خان کو قومی مالیاتی کمیشن کا چیئرمین بنایا گیا ہے جب کہ مشیر خزانہ اور چاروں صوبائی وزرائے خزانہ قومی مالیاتی کمیشن کے رکن مقرر کیے گئے ہیں۔

تحریری نوٹیفکیشن میں مشیر خزانہ کو وزیرخزانہ کی عدم موجودگی میں قومی مالیاتی کمیشن کی صدارت کا اختیار بھی دیا گیا ہے اور وفاقی سیکرٹری خزانہ کو آفیشل ایکسپرٹ کے طور پر ممبر بنایا گیا ہے۔

قانونی ماہرین نے اس کمیشن کی تشکیل نو کو ماورائے آئین قراردیا ہے کیوں کہ ان کے خیال میں دو عہدیداروں کی شمولیت اور ان کے بعض اختیارات آئین سے متصادم ہیں۔

قومی مالیاتی کمیشن کی تشکیل نو اور ذمہ داریاں

پاکستان کی وزارت خزانہ میں قائم این ایف سی سیکرٹریٹ کی طرف سے جاری نوٹیفکیشن کے مطابق صدرمملکت نے 1973کےآئین میں شامل آرٹیکل 160(1) کے تحت23 اپریل 2020سے دسویں قومی مالیاتی کمیشن ایوارڈ کی تشکیل کی ہے۔

قومی مالیاتی کمیشن (نیشنل فنانس کمیشن -این ایف سی)10 ارکان اور ایک آفیشل ایکسپرٹ پر مشتمل ہے ۔ نیشنل فنانس کمیشن کے ٹی او آرز کے مطابق کمیشن وفاقی، صوبوں اور دیگر علاقوں کے لیے وسائل کے امور بھی طے کرے گا۔

وفاق اور صوبوں میں مالی وسائل کی منصفانہ تقسیم کی ذمہ داری قومی مالیاتی کمیشن کے سپرد ہوتی ہے ۔ آئین کے تحت ہر پانچ سال بعد اس کمیشن کو نیا فارمولا وضع کرنا ہوتا ہے ۔

آرٹیکل 160(2) کے تحت این ایف سی ایوارڈ کے ٹرمز آف ریفرنس میں وفاق اور صوبوں کے درمیان کئی ٹیکسوں کی تقسیم شامل ہے جن میں آمدنی پرٹیکس بشمول کارپوریشن ٹیکس بھی شامل ہیں۔ تاہم اس میں وفاقی کنسولیڈیٹڈ فنڈ پرمعاوضوں کی ادائیگی سے حاصل آمدن پرٹیکس شامل نہیں ہوگا۔

اشیا کی خرید وفروخت، درآمد و برآمد، پیداوار، مینوفیکچرنگ اور استعمال پر عائد ٹیکس، کاٹن پر ڈیوٹی بشمول صدر مملکت کی طرف سے تخصیص کردہ دیگر برآمدی اشیاء پرڈیوٹی اورصدرمملکت کی طرف سے مخصوص کردہ ایکسائز ڈیوٹیزیا دیگر ٹیکسز کی تقسیم بھی این ایف سی کرے گا۔

کمیشن کے ذمے درج ذیل فرائض ہیں:

  • وفاقی حکومت کی طرف سے صوبائی حکومتوں کے لیے گرانٹ ان ایڈ کی تیاری
  • آئین کے تحت وفاقی اورصوبائی حکومتوں کی جانب سے قرضوں کے اختیارات پرعملدرآمد
  • پاکستان کے زیر انتظام کشمیر حکومت، گلگت بلتستان اورخیبرپختونخوامیں ضم ہونے والے سابق قبائلی اضلاع کے لیے وسائل کاجائزہ اورسفارشات
  • سلامتی اورقدرتی وناگہانی آفات پراخراجات کا جائزہ اوروسائل کی تخصیص
  • مجموعی قومی قرضوں کا جائزہ اوران کی ادائیگی کے لیے وسائل مختص کرنا
  • وفاقی اورصوبائی حکومتوں کی جانب سے مالی وصولیوں میں فراہم کردہ زرتلافیوں کا جائزہ لینا اوراس مقصد کے لیے مالی وسائل فراہم کرنے پر اتفاق رائے  
  • سرکاری کاروباری اداروں کے خسارے کو کم کرنے کے لیے بچت کاتعین کرنا
  • وفاق وصوبوں کے درمیان خسارے کوبانٹنے کے لیے طریقہ کاروضع کرنا 
  • ان ذمہ داریوں کے علاوہ این ایف سی صدر کی طرف سے ارسال کردہ دیگرکسی بھی مالیاتی ایشوکاجائزہ لے سکے گا۔ وزارت خزانہ دستورکے مطابق این ایف سی کوسیکرٹریٹ طرز کی معاونت فراہم کرے گی۔

قانونی ماہرین کے تحفظات:
سابق ایڈووکیٹ جنرل بیرسٹر ضمیر گھمرو نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ صدر پاکستان کی جانب سے تشکیل دیے گئے دسویں قومی مالیاتی کمیشن میں آئین کی آرٹیکل 160کے مطابق وزیراعظم کے مشیر برائے خزانہ اور سیکریٹری خزانہ کو ممبر بنایا گیا ہے، اس امر کی آئین کی آرٹیکل 160 میں کوئی گنجائش نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ کمیشن صرف تین معاملات پر بات کر کے اپنی سفارشات صدر مملکت کو دے سکتا ہے وہ یہ ہیں: چار بڑے محصولات کی تقسیم، صوبوں کو دی جانے والی امداد اور وفاق یا صوبوں کے قرضوں پہ سفارشات، ان تین باتوں کے علاوہ باقی تمام باتیں کمیشن کے دائرہ اختیار میں نہیں ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بیرسٹر ضمیر گھمرو نے کہا کہ اس کمیشن کی شرائط میں درج ہے کہ یہ خسارے میں جانے والے محکموں کے بارے میں پالیسی بھی بنا سکتا ہے۔ جب کہ یہ نہ تو این ایف سی کا کام ہے اور نہ ہی صوبے وفاق کے محکموں کے بارے میں کوئی پالیسی دے سکتے ہیں۔

ان کا مزید یہ کہنا تھا کہ کشمیر اور گلگت بلتستان وفاق کی ذمہ داری ہیں اسی طرح آفات اور ملکی سلامتی بھی وفاق کے ذمے ہیں ان کے بارے میں این ایف سی میں کوئی بات نہیں ہو سکتی۔

ضمیر گھمرو کے مطابق کمیشن کے ٹرمز آف ریفرنس میں ایسی باتیں بھی دی گئی ہیں جو اس کے دائرہ اختیار سے باہر ہیں اور جو آئین کی رو سے صدر پاکستان اس میں شامل نہیں کر سکتے۔

صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن سید قلب حسن شاہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ صرف این ایف سی کی تشکیل میں من پسند شخصیات کو شامل کر کے غیر آئینی اقدام نہیں کیا گیا بلکہ ہر طرف غیر منتخب لوگوں کے ذریعے کام چلانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’جب کابینہ ہی غیر منتخب افراد سے بھری ہوگی تو بہتر فیصلے کیسے ممکن ہیں؟ 'ہر شعبے میں امپورٹڈ عہدیدار لگا دیے گئے جو کام ختم ہونے ہر بریف کیس اٹھا کر نکل جائیں گے۔'

ان کے خیال میں اس طرح کے اقدامات سے جمہوری ادارے کمزور ہورہے ہیں اور پارلیمنٹ بے اثر ہوکر رہ گئی ہے۔

انہوں نے اپوزیشن کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہاکہ اپوزیشن جماعتیں بھی مجبوریوں کے تحت خاموش ہیں اور حکمران جو چاہے کرنے میں آزاد دکھائی دیتے ہیں۔

اس معاملے پر بات کرنے کے لیے وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم سے بات کرنے کی کوشش کی گئی لیکن ان سے رابطہ ممکن نہیں ہو سکا۔

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت