کرونا سے پہلے کی مصنوعی دنیا اور حیرت کا جنازہ

میرے لیے سمجھ لیجیے دنیا بلیک اینڈ وائٹ ہو گئی ہے۔ مطلب جو آدم بیزاری تھی، جو اکیلا پن پسند تھا وہ اپنی ذات کے لیے تھا۔

جیسے آپ ایک عمارت کی چوتھی منزل سے نیچے دیکھیں، آپ کے پاس ایک گھنٹہ ہو اور بس آپ دیکھتے رہیں تو آپ کو وہ سارے چلتے پھرتے لوگ ایویں بے مقصد سے لگیں گے۔(تصاویر: حسنین جمال)

مجھے پوری دنیا غیر حقیقی لگ رہی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ابھی والی نہیں، کرونا سے پہلے والی۔

ایک کتاب اٹھائی، اس میں کسی جنازے کا ذکر تھا، وہ رائٹر کیسے ایک بچے کے ساتھ بیٹھا تھا، پھر ان سب نے مل کے کھانا کھایا، پانچ بندوں نے ایک ساتھ گاڑی میں سفر کیا، پھر آگے چل کے اس نے کہیں لکھا کہ ہمارے بچوں کا کیا بنے گا، ہم انہیں وقت نہیں دے پاتے، ہم اپنی روٹین میں بزی ہیں، ہمارے پاس کچھ بھی کرنے کو فرصت نہیں ہے، وغیرہ، وغیرہ، وغیرہ۔
میرے ساتھ چل یہ رہا ہے کہ جب وہ لوگ اکٹھے کھانا کھا رہے تھے تو میرے دماغ میں گھنٹیاں بجنے لگیں کہ ابے پاگل ہو، جنازے پہ اتنے سارے بندے اکٹھے کیوں ہو گئے، تم کو مرنا ہے کیا؟ پھر یاد آیا کہ اوہو یہ تو قبل از کرونا دور کی باتیں ہیں۔ جدھر پانچ بندوں کے سفر کا ذکر تھا ادھر پھر میں پریشان، کہ یہ ماسک لگائے بغیر کیسے اتنا گھس پھس کے بیٹھے ہوں گے؟ پھر وہ روٹین کا رونا جو ابھی کچھ مہینے پہلے تک ہم سب کا مشترکہ غم تھا کہ گھر کو وقت نہیں دے پاتے، وہ کتنا عجیب لگ رہا ہے۔ مطلب اب اتنا وقت ہے کہ سنبھل نہیں رہا۔ گھر، فیملی، بچے، چوبیس گھنٹے کا وقت، اور کیا چاہیے؟ شاید وقت کی گراریاں پھنس گئی ہیں یا اپنا بیلنس آؤٹ ہو چکا ہے، جو بھی ہو ساری فلمیں اور پورا لٹریچر اب کوئی خاص مزا نہیں دے رہا۔

ایسا نہیں ہے کہ میں کرونا سے پہلے کوئی بہت سوشل انسان تھا جس کی ملاقاتیں ہی ختم نہ ہوں، نہیں تھا، کچھ بھی ایسا نہیں تھا، بس یہ ہے کہ گنے چنے دوست، دفتر کے کولیگ، انہی سے گپ شپ، انہی میں کھانا پینا، یا ویک اینڈ پہ اکٹھے ہو جانا، بس ختم۔ بلکہ ٹھیک کہا جائے تو جو قریبی لوگ ہیں وہ بخوبی جانتے ہیں کہ میں شروع سے آدم بیزار ٹائپ کا ہی تھا۔ مثلاً آپ ون ٹو ون ملیں یا چلیے دو بندے ہیں، بہترین گپ شپ رہے گی، جہاں تین چار سے زیادہ کا اکٹھ ہوا وہاں جمائیاں آنی شروع ہو جاتی ہیں۔ کھانے کا شوق بھی ٹکے کا نہیں تھا کہ اسی بہانے دوست یاروں کے پاس گھنٹوں بیٹھا جائے۔ کرونا سے پہلے بھی چھٹی کا دن کمرے میں لیٹے گزرتا تھا، اب بھی یہی ہوتا ہے۔ پہلی ملاقات میں تب بھی سامنے والا آدھے پونے گھنٹے میں بور ہو جاتا تھا، اب بھی ہوتے ہوں گے۔ وقت پہلے بھی کسی پسندیدہ مصروفیت میں کٹتا تھا، اب بھی وہی ہوتا ہے۔ تو میرے خود کے لیے کیا بدلا ہے؟
میرے لیے سمجھ لیجیے دنیا بلیک اینڈ وائٹ ہو گئی ہے۔ مطلب جو آدم بیزاری تھی، جو اکیلا پن پسند تھا وہ اپنی ذات کے لیے تھا۔ دوسروں کو تو دیکھ کے اچھا لگتا تھا۔ جیسے بیٹی اگر پہلے کہتی کہ بابا میں دوستوں کے ساتھ جا رہی ہوں تو میں کبھی نہ روکتا، مجھے اچھا لگتا، ایک دو نصیحتیں کر کے روانہ کر دیتا۔ بیوی نوکری پہ جا رہی ہوتی یا کہیں کسی پروگرام میں، خود چھوڑ کے آ جاتا۔ خوش ہوتا کہ اچھا ہے، مصروفیت ہے۔ یا کوئی دوست سناتا کہ آج فلاں جگہ گئے، یہ کھایا، یہ پیا، اتنا گھومے، تو اچھا لگتا کہ واہ اس نے مزے کیے، اس کے چہرے کا رنگ، اس کی آواز میں تازگی، وہ سب دلچسپ لگتا۔ لیکن اب تو پوری دنیا وہ زندگی گزارنے پہ مجبور ہو گئی ہے جو میری پہلے تھی۔ اصل میں شاید یہ چیز مجھے کاٹ رہی ہے کہ پہلے والی بھگوان ٹائپ فیلنگ ختم ہو گئی ہے۔

جیسے آپ ایک عمارت کی چوتھی منزل سے نیچے دیکھیں، آپ کے پاس ایک گھنٹہ ہو اور بس آپ دیکھتے رہیں تو آپ کو وہ سارے چلتے پھرتے لوگ ایویں بے مقصد سے لگیں گے۔ مطلب کوئی آ رہا ہے، کوئی جا رہا ہے، کوئی لڑ رہا ہے، کوئی کھا رہ ہے، کوئی بھاگ رہا ہے، کوئی کچھ بیچ رہا ہے، لیکن چوتھی منزل سے بس وہ سب بے نام سے چہرے ہیں جن کا مجموعی نام رونق ہے، چہل پہل ہے۔ جو کوئی بھی نہیں ہیں لیکن بس رنگ ہیں، آنکھوں کو اچھے لگتے ہیں۔ تو پوری دنیا اپنے لیے اس وقت ایسی ہوتی تھی۔ لوگ باہر ملک جا رہے ہیں، انسٹاگرام تصویروں سے بھرا پڑا ہے، کلبنگ ہو رہی ہے، پارٹیاں، کنسرٹ، کرکٹ میچ، ہر وہ چیز جس سے میرا پہلے بھی کوئی واسطہ نہیں تھا، وہ چل رہی ہے، لیکن بس اس کا ہونا زندگی کا احساس تھا۔ اب وہ سب نہیں ہے۔ اب ایسا سناٹا ہے جیسے اکیلے میں کانوں کے اندر ایک آواز گونجتی ہے اور بس “کن” کی سی وہ چیخ لمبی ہوتی جاتی پے۔
تو وہ سب کچھ اب مجھے ارریلیونٹ لگ رہا ہے۔ میں کیسے وہ فلم دیکھ لوں جس میں بچے ماسک پہنے بغیر ساتھ ساتھ کلاس میں بیٹھے ہیں؟ میں کیسے وہ گانا سن لوں جس میں پورا محلہ ناچ رہا ہے؟ میں کیسے کسی بار کا منظر دیکھوں؟ کس طرح اب میں ان سب سے ریلیٹ کر سکتا ہوں؟ یہ مسئلہ منہ پھاڑے سامنے کھڑا ہے۔
مجھے سوشل میڈیا پسند نہیں تھا، اب میرا بہت وقت بے مقصد انگوٹھا چلاتے گزرتا ہے، کیوں کہ بہرحال وہ حاضر وقت کی گیم ہے، بعد از کرونا کی زندگی ہے۔ اور ایک جو سب عجیب کام ہوا ہے وہ یہ کہ میری حیرت ختم ہو چکی ہے۔ میں اسے ڈھونڈ ڈھونڈ کر تھک گیا ہوں لیکن وہ مجھے کسی کونے سے آواز نہیں دیتی، انگلی نہیں پکڑاتی۔ مجھے کوئی آ کر کہے کہ اس نے چھت پر آدمی اڑتے دیکھے ہیں، میں حیران نہیں ہوں گا۔ یقین نہ کروں، الگ بات ہے لیکن حیرت بھی نہیں ہو گی۔ مجھے کہا جائے نمک پہ چیونٹی بیٹھی تھی، تب بھی نہیں ہوں گا حیران۔ کوئی بتائے کہ آسمان میرون ہو گیا ہے تو بھی نہیں، کہیں گھڑی الٹی چل رہی ہو، نہیں، کوئی دس دن پرانا مرا ہوا بندہ زندہ ہو جائے، نہ! سنوں کہ مریخ کی مخلوق زمین پہ آ گئی، نہیں، بھینسا دودھ اور مرغا انڈے دینے لگے، پھر بھی نہیں، یہاں تک کہ خان صاحب نے کسی دن فوج کو للکار دیا تب بھی نہیں! کچھ بھی ہو جائے، بولیں کہ دن میں دو بجے رات والا اندھیرا ہے یا سورج مغرب سے نکل پڑا ہے پھر بھی نہیں ہو گی۔
حیران ہونے کو بچا کیا ہے؟ جن بلاؤں کو میر سنتے تھے، ان کو اس روزگار میں دیکھا۔ اب کیا رہ گیا ہے؟

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سب دیکھ لیا، پڑوسیوں کے گھر فون ہوتا تھا، تین تین دن میں کال لگتی تھی، اب اپنے ہاتھ میں موبائل ہے۔ ریڈیو الگ ہوتا تھا، ٹی وی الگ، کیلکولیٹر الگ، کمپاس الگ، گھڑی الگ، کیمرا الگ، ریل الگ، سیل الگ، کاغذ، قلم، کتاب، اخبار، پینٹنگز کی کلیکشن، نبض دیکھنے کا آلہ، وی سی آر، سی ڈی پلئیر، واک مین، سینکڑوں کیسیٹیں، ہزاروں سی ڈیاں، سب کچھ تو ایک چھ انچ کی ڈیوائس میں اپنی آنکھوں کے سامنے بند ہوتے دیکھ لیا، اب کیوں حیران ہوا جائے؟
تو بس یوں ہے۔ سب کچھ بظاہر قائم بھی ہے اور نہیں بھی ہے۔ سب کچھ ریلیونٹ ہے بھی اور بالکل ایک دم ارریلیونٹ بھی ہے۔ حیرت کا جنازہ نکل چکا ہے اور کچھ بھی نیا نہیں ہے۔ آپ یقین کیجیے کہ یہ کرونا آئیسولیشن اور پوری دنیا کی ایسی خوار زندگی، یہ سب بھی نیا نہیں ہے، حیرت اس پر بھی نہیں ہوتی۔ زندگی بس ہاروکی موراکامی کے ناول کا ایک کردار لگتی ہے۔ ہاں شاید وہ ریلیونٹ ہے۔ آپ ضرور پڑھیں۔ وہ اکیلے آدمیوں کی کہانیاں ہیں۔ کافکا آن دا شور، آ وائلڈ شیپ چیز، آفٹر ڈارک، سپوٹنک سوئیٹ ہارٹ، ون کیو ایٹ فور، کچھ بھی پڑھ لیں۔ وہ سب ایسا لگے گا جیسے ان ناولوں میں بھی کوئی کرونائی روح گھسی ہوئی ہے۔ واقعی، اتنا کچھ لکھنے کے بعد یاد آیا کہ اس پوری دنیا میں ایک رائٹر ایسا ہے جو اب بھی ریلیونٹ ہے۔ اسے دوبارہ پڑھا جا سکتا ہے۔ واہ، زندہ باد، آپ کا شکریہ کہ یہاں تک ساتھ دیا، فقیر اسی دنیا میں جاتا ہے جہاں کا تھا۔

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ