صوبہ پنجاب کے اساتذہ اب گندم کی سمگلنگ کیسے روکیں؟

حکومت پنجاب کے تازہ احکامات کے مطابق کرونا وائرس کی وجہ بند سکولوں کے اساتذہ قرنطینہ سینٹرز اور احساس پروگرام تقسیم کے بعد اب گندم کی سمگلنگ روکنے پر مامور ہوں گے۔

ایسی صورتحال میں بیشتر اساتذہ پریشان ہیں اور نوکری بچانے کے لیے مجبوری میں ڈیوٹی کر رہے ہیں (اے ایف پی)

حکومت پنجاب نے کرونا کی وجہ سے بند سکولوں کے اساتذہ کو اب صوبے سے گندم کی سمگلنگ کی ڈیوٹی پر مامور کر دیا ہے۔

پاکستان میں کرونا وائرس کو پھیلنے سے روکنے کے لیے سب سے پہلے سکولوں کو ہی بند کیا گیا تھا جس کے بعد اساتذہ کی ڈیوٹیاں پہلے صوبے میں قائم قرنطینہ سینٹرز میں لگائی گئیں، اور پھر مستحقین میں حکومتی امداد کی تقسیم کے لیے قائم کردہ احساس کفالت پروگرام میں بھی ان کی خدمات لی گئیں۔

اب حکومت نے صوبے سے گندم کی سمگلنگ روکنے کے لیے بھی اساتذہ کو ڈیوٹی دینے پر مامور کیا ہے جبکہ دوسری جانب ہفتے میں دو دن سکول میں ڈیوٹی کا بھی حکم نامہ جاری کر دیا گیا ہے۔

ایسی صورتحال میں بیشتر اساتذہ پریشان ہیں اور نوکری بچانے کے لیے مجبوری میں ڈیوٹی کر رہے ہیں۔

ترجمان پنجاب حکومت کے مطابق ایسے غیر معمولی حالات میں تمام محکموں کے سرکاری ملازمین کو کسی بھی انتظامی امور میں ضرورت پڑنے پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ جب کہ ٹیچر یونین پنجاب کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ حکومت نے اساتذہ کے روکے گئے کنوینس الاؤنس بحالی کا مطالبہ مان کر انہیں گھروں سے باہر نکلنے پر مجبور کر دیا ہے۔

اساتذہ کو درپیش مسائل

لاہور کے ایک سرکاری سکول ٹیچر صادق علی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان کی عمر 56 سال ہے اور انہیں گندم سپلائی روکنے کے لیے بنائے گئے ناکے پر ڈیوٹی کے لیے ہدایات جاری ہوئی ہیں، جب کہ محکمہ صحت کی جانب سے جاری ہدایت نامے میں 50 سال سے زائد عمر کے لوگوں کے لیے گھروں سے باہر نکلنا خطرناک قرار دیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس کے ساتھ ہی محکمہ تعلیم نے سکول میں بھی ہفتے کے دو دن حاضری یقینی بنانے کی ہدایات جاری کی ہیں۔

’اب دو دو جگہ ڈیوٹیاں کیسے کریں گے؟ دوسرا یہ کہ میں نے ساری عمر بچوں کو تعلیم دی ہے اب سمگلنگ روکنے کا کام کیسے انجام دیں یہ بھی فکر لاحق ہے۔‘

ٹیچر یونین پنجاب کے جنرل سیکرٹری رانا لیاقت علی نے بھی ٹیچرز کی اس نوعیت کی ڈیوٹی پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے انڈپینڈنٹ اردو سے کو بتایا کہ پہلے ہی اساتذہ سے کرونا وبا سے بچاؤ کے اقدامات میں ڈیوٹی لی جاتی رہی جب انہوں نے اپنے پہلے سے بند سفری الاؤنس بحال کرنے کا مطالبہ کیا تو حکومت نے قرنطینہ سینٹرز اور احساس کفالت پروگرام کے بعد گندم سمگلنگ روکنے کی شرط پر الاؤنس بحال کیے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کہا کہ اساتذہ کو ملنے والے دو سے پانچ ہزار تک ماہانہ الاونسز کی بحالی ان کا حق تھا لیکن اضافی ڈیوٹی سے انہیں نئے امتحان میں ڈال دیا گیا ہے۔

ان سے پوچھا گیا کہ سکول تو بند ہیں اساتذہ ہفتہ میں دو دن سکولوں میں کیا کریں گے؟ جس پر انہوں نے بتایا کہ سکولوں کی دیکھ بھال اور انتظامی امور بحال رکھنے کے لیے یہ فیصلہ کیا گیا ہے لیکن اس سے ہمیں کوئی انکار نہیں کیوں کہ ہمیں بھی تعلیمی حرج کی فکر ہے۔ بلکہ حکومت کو چاہیے کہ احتیاطی تدابیر کی شرط پر بچوں کو بھی ہفتے میں دو دن سکول آنے کی اجازت دیں کیوں کہ تعلیمی سال شروع ہوچکا ہے۔ جو بچے اگلی کلاسوں میں گئے ہیں انہیں کتابیں اور چھٹیوں کا کام دینے میں آسانی رہے گی۔

انہوں نے حکومت کو مشورہ دیا کہ اگر سکول نہیں کھولنے تو کم ازکم بچوں میں کتابوں کی تقسیم کے لیے حکمت عملی بنائیں تاکہ بچے گھروں میں رہ کر تعلیمی نصاب سے شناسائی اور واقفیت حاصل کر سکیں۔
اساتذہ کی اضافی ڈیوٹی کیوں ضروری ہے؟

ترجمان پنجاب حکومت مسرت جمشید چیمہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مشکل کی اس گھڑی میں حکومتی امور چلانے کے لیے ٹیچرز سمیت تمام سرکاری ملازموں سے ڈیوٹی لی جا رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ کرونا سے متعلق اقدامات ہوں یا گندم سمگلنگ روکنے کی ناکہ بندی، جہاں سٹاف کم ہوتا ہے وہاں دیگر محکموں کے ملازمین سے ڈیوٹی کرائی جاتی ہے۔ سکول کیوں کہ بند ہیں اس لیے اساتذہ سے دیگر ڈیوٹی بھی باآسانی لی جاسکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ صوبہ پنجاب کی آبادی کے لحاظ سے انتظامات بھی اتنے وسیع ہوتے ہیں اس لیے آٹے کی قلت کو روکنے کے لیے گندم اور آٹے کی سمگلنگ ناگزیر ہے۔ یہ گندم کا سیزن ہے تو اس موقعے پر حکومت نے موثر انتظامات کیے ہیں۔

’یہ کوئی نئی بات نہیں کہ اساتذہ کی ڈیوٹیاں غیر متعلقہ محکموں میں لگائی جا رہی ہیں اس سے پہلے بھی ان کی ڈیوٹیاں لگتی رہی ہیں۔‘

الیکشن ہوں، شہریوں کی بہتری کے لیے کوئی بڑی مہم چلانی ہو یا سیلاب، زلزلہ جیسی آفات کی تباہ کاریوں کے بعد امدادی سرگرمیاں ہوں، ہر میدان میں ان کی خدمات لی جاتی رہی ہیں۔

لیکن رانا لیاقت کا کہنا ہے کہ اساتذہ اضافی ڈیوٹی سے نہیں گھبراتے بلکہ انہیں اعتراض یہ ہے کہ گندم کی سپلائی روکنے جیسے تکنیکی کام پر ان کی مہارت نہیں اور اس غیر قانونی کام کرنے والوں سے نمنٹنے کا تجربہ بھی نہیں۔

انہوں نے کہا کہ محکمہ تعلیم کی جانب سے اساتذہ سے زبردستی یہ ڈیوٹی کرائی جا رہی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کیمپس