2008 کے موسم گرما میں ماؤنٹ ایورسٹ بیس کیمپ کا ایک سفر

جب اکیس سالہ ساڈی وائٹ لاکس مہم جوئی کے شوق میں بغیر کسی ضروری سامان یا تیاری کے ہمالیہ کے سفر پر روانہ ہوئی۔

 ماؤنٹ ایورسٹ کے بیس کیمپ کا دلکش نظارہ (ساڈی وائٹ لاکس) 

مجھے اس وقت شدید خوف نے جکڑ لیا جب میں یے ٹی ایئرلائن کے ذریعے ایک جھٹکے سے دھند سے ڈھکے پہاڑوں سے اوپر پہنچ گئی۔ میری منزل نیپال کے قصبے لوکلا میں واقع تین زینگ ہیلری ایئرپورٹ تھا جو دنیا کے سب سے خطرناک ہوائی اڈوں میں سے ایک مانا جاتا ہے۔

سطح سمندر سے نو ہزار فٹ سے زیادہ بلندی پر موجودگی، جہاں ہوا کا دباؤ کم ہوتا ہے، اڑان کو اور مشکل بنا دیتا ہے، وہیں اس ایئرپورٹ کی ایک اور مشکل چیز یہ ہے کہ اس کا رن وے محض 1729 فٹ طویل ہے۔ یہ کسی بھی بین الاقوامی معیار کے اوسط رن وے سے پانچ گنا چھوٹا ہے۔

اس کے اردگرد موجود بلند و بالا پہاڑی چوٹیاں غلطی کی بہت تھوڑی گنجائش چھوڑتی ہیں اور پھر ہمالیہ کا بدنام جذباتی خطرناک موسم۔

میں اچانک پریشان ہوگئی کہ کیا اپنی 21 ویں سالگرہ منانے کے لیے آخری لمحے میں ماؤنٹ ایورسٹ بیس کیمپ کے سفر کا بغیر سوچے سمجھے کیا جانے والا یہ فیصلہ برا تو نہیں تھا۔

ہمارا طیارہ بادلوں کے اوپر نیچے ہچکولے کھاتا رہا اور نیچے جنگلات سے ڈھکے پہاڑ ہر مرتبہ آہستہ آہستہ قریب آ رہے تھے۔

پائلٹ کے پیچھے والی اہم نشست پر بیٹھے ہوئے میری نظر ان کی سیٹ کے نیچے ہدایات پر مبنی کتابچے پر پڑی اور میں نے دعا کی کہ کاش اس سفر سے قبل اس پائلٹ نے اس روٹ پر کئی بار یہ جہاز چلایا ہو۔ 

پرواز کے دوران کاک پٹ کا منظر (ساڈی وائٹ لاکس)


شکر ہے کہ اگلے ہی لمحے مجھے زمینی پٹی دکھائی دی اور ایک جھٹکے کے بعد ہم بحفاظت اتر چکے تھے۔ کھٹمنڈو سے یہاں تک کی 25 منٹ کی یہ پرواز طویل ترین تھی۔

ہوائی اڈے پر جس بات کا مجھے سب سے زیادہ احساس ہوا وہ ہلکی ہوا تھی۔ میں نے دیکھا کے درجنوں مقامی لوگ ایئرپورٹ کی آمد کے ہال میں زنگ آلود جنگلوں کے ساتھ کھڑے تھے۔ میں نے پتھر کی بنی ایک چھوٹی سی دیوار کا سہارہ لیا تاکہ اپنے آپ کو گرنے سے بچا سکوں۔

میں زندگی میں پہلی بار اتنی اونچائی پر آئی تھی اور مجھے لگ رہا تھا کی جیسے میرے جسم سے قطرہ قطرہ خون باہر آ رہا تھا۔ میں وہاں موجود لکڑی کے چھوٹے سے کھوکھے تک پہنچنے میں کامیاب ہوئی جہاں پانی کی بوتلیں اور میٹھی چیزیں فروخت ہو رہی تھیں۔ وہاں سے اپنے لیے میں نے مارز چاکلیٹ خریدی جسے کھانے کے بعد آلٹی ٹیوڈ سکنس (اونچے مقام پر طبیعت کی خرابی) کا بظاہر علاج ہوا۔

جب میں تھوڑی سنبھل گئی تو مجھے ٹریکنگ (پہاڑی سفر) کرنے والے اپنے 12 ساتھی یاد آگئے۔ ابھی ہم نے آغاز بھی نہیں کیا تھا اور میں اپنی کمزوری ظاہر کر رہی تھی۔

یقیناَ اس سفر کے لیے میری کوئی تیاری نہیں تھی، جو میں نے تین ہفتے قبل بالکل آخری لمحے پر بک کی کہ کوئی مختلف سی مہم جوئی کی جائے۔ میرے والدین کے درمیان علیحدگی ہونے کے بعد میں نہیں چاہتی تھی کہ میں یہ خاص سالگرہ کسی ایک کے ساتھ مناؤں۔

وہ بھی بجا طور پر میرے ٹریکنگ کے سامان کے بارے میں مطمئن نہیں تھے، جس میں صرف ایک بیک پیک (بیگ) تھا، جس کے گرد میں نے اپنے ایک دوست سے لی گئی گیف ٹیپ لگا رکھی تھی۔ میں نے کپڑوں کی الماری میں پڑی ہوئی کچھ ان چیزوں کا جائزہ لیا جو سکول سے باہر جانے والے کورسز میں استعمال ہوئی تھی اور فلائٹ سے ایک دن پہلے ملیٹس (مشہور یوکے برانڈ) سے ہائیکنگ کے جوتے خریدے تھے، اس بات سے عاری کہ پہلے ان جوتوں کو ٹیسٹ کرنا پڑتا ہے، میں نے فضائی سفر کے دوران بس ہوائی چپل اور پھولوں والا سکرٹ ہی پہنا ہوا تھا۔

میرے تقریباً بےہوش ہونے کے اس سفر اور جلدی میں تیار کی گئی کٹ کے باوجود، نیلے آسمان والے لوکلا سے روانگی کے وقت میں اپنے گروپ کے ساتھ رہنے میں کامیاب رہی۔

وہاں کا نظارہ انتہائی شاندار تھا۔ ایورسٹ بیس کیمپ کا بل کھاتا راستہ 2008 کے اس اگست میں لوگوں سے تقریباَ خالی تھا۔

راستے میں کبھی کبھار آوارہ پہاڑی بکریاں اور چند مقامی لوگ، جو ناقابل یقین حد تک بہت بھاری وزن اپنے سروں اور مضبوط گردنوں پر اٹھائے ہوئی تھے، دکھائی دیے۔ لیکن ہمیں راہگیروں سے راستہ لینے کے لیے شاذ و نادر ہی کوشش کرنی پڑی۔ ہم ان راستوں پر بنی قیام گاہوں (لاجز) کے واحد مکین تھے جہاں آپ کچھ دیر ٹھہر سکتے تھے۔

کئی دنوں تک ہم سبزہ زاروں اور گھنے جنگلات میں چلتے رہے جہاں کمزور جھولنے والے پل ان گھاٹیوں کو ملانے کا واحد راستہ تھے۔

جب ہم ٹینگبوچے کی خانقاہ پہنچے تو ہم نے صبح کے بادلوں میں چھپنے سے قبل ماؤنٹ ایورسٹ کی پہلی جھلک دیکھی۔ خانقاہ کے جادوئی احاطے میں ہم نے یاک کے گوبر سے آگ جلائی، میٹھے دودھ والی چائے کے مزے لیے اور راہبوں کو عبادت کرتے سنا جن کی آوازیں سرد شام ڈھلنے کے ساتھ ساتھ مدھم ہو رہی تھیں۔

کچھ جگہیں دوسروں سے کم محسور کن تھیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایک قیام گاہ میں مجھے یاد ہے کہ میں نے ایک پریشان کن مضطرب آواز سنی۔ جب روشنی جلا کے دیکھا تو کئی پروانے کسی قالین کی طرح لکڑی کی چھت کے ساتھ چپکے ہوئے تھے۔

ایک دوسری جھونپڑی میں آپ کو بہت احتیاط سے بیت الخلا جانا ہوتا تھا کیونکہ اس کا بوسیدہ لکڑی کا فرش پاؤں پڑنے کے بعد اور کمزور لگنے لگتا تھا۔

جب ہم کافی مشقت کے بعد ان کیچڑ سے بھری وادیوں اور پتھروں سے ڈھکے میدانوں سے گزر کر اپنی منزل مراد پر پہنچے تو یہ ایک انتہائی جذباتی لمحہ تھا۔

میں رو پڑی جب میں نے برف سے ڈھکے ماؤنٹ ایورسٹ کی ڈھلوانوں کو دیکھا، جو جادوئی طور پر مارش میلو نما بادلوں جیسا دکھائی دے رہا تھا۔ اس کی چاند نما سطح برف کی مسلسل حرکت سے آوازیں پیدا کر رہی تھی۔ وہاں منجمد سطحوں کے نیچے چھپے ہوئے نیلے تالاب بھی تھے۔ میرے پاؤں کے نیچے جمع کیچڑ اچھے لگنے لگے۔

لیکن اس انوکھے نظارے کی وجہ سے مجھ پر مکمل خاموشی چھا گئی۔ اس احساس نے مجھے کبھی نہیں چھوڑا۔ ایورسٹ بیس کیمپ کے اس سفر کے بعد میں نے دوبارہ ہمالیہ کے سفر کی خواہش ہمیشہ کی ہے۔

ساڈی وائٹ لاکس ایل دہائی کے بعد ریکارڈ بناتے ہوئے۔


تقریباَ دس سال بعد میں نے سنا کہ کچھ لوگ ایک گروپ کی شکل میں گنیز ورلڈ ریکارڈ میں اپنا نام شامل کرنے کے لیے ماؤنٹ ایورسٹ کے نارتھ کول (شمالی سمت پر سب سے اونچا سرا)، جو 23149 فٹ کی بلندی پر ہے، پر ایک ڈنر پارٹی کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔

میں نے بھی اس چیلنج کے لیے اپنے آپ کو پیش کیا۔ اگرچہ اس بار میرے پاس لوازمات پورے تھے اور میں نے لندن کی زیر زمین انڈر گراؤنڈ کی سیڑھیوں پر اوپر نیچے بھاگنے کے علاوہ بھی تربیت لی تھی۔

جب میں نے ایورسٹ کو دوبارہ دیکھا تو پہلی بار اسے دیکھنے والی یادیں ایک دم سے لوٹ آئیں۔ میں نے اس وقت ایک ناتجربہ کار بیک پیکر ہوتے ہوئے یہ کبھی نہیں سوچا تھا کہ ایک دن پھر سے ماؤنٹ ایورسٹ آ جاؤں گی اور اس کے ڈھلوانوں پر تین کورس کا مکمل عشائیہ کھا کر ورلڈ ریکارڈ قائم کروں گی۔

میرے خیال میں یہ کافی دلچسپ بات ہے کہ کیسے چیزیں ایک دائرے کی صورت اختیار کر لیتی ہیں۔ یہی سفر کرنے کی خوبصورتی ہے کیونکہ آپ کو معلوم بھی نہیں ہوتا کہ کیسے ایک تجربہ آپ کو اس حد تک متاثر کرے گا جو آپ کے تصور میں بھی نہیں ہوگا۔

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی میری کہانی