'افغان حکومت طالبان سے مذاکرات کے لیے کسی بھی وقت تیار'

امن مذاکرات کے لیے بنائی گئی کونسل کے سربراہ عبداللہ عبداللہ کے مطابق طالبان کی جانب سے فائر بندی کے نتیجے میں تشدد کے خاتمے کی وجہ سے بات چیت کا آغاز ہوسکتا ہے۔

عبداللہ عبداللہ نے کہا کہ 'جنگ بندی کے اعلان، تشدد میں کمی اور قیدیوں کے تبادلے نے ایک اچھی شروعات کی راہ ہموار کردی ہے۔' (فائل تصویر: اے ایف پی)

افغان امن مذاکرات کے لیے بنائی گئی کونسل کے سربراہ عبداللہ عبداللہ کا کہنا ہے کہ ان کی ٹیم افغان طالبان کے ساتھ 'کسی بھی وقت' بات چیت شروع کرنے کے لیے تیار ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق عبد اللہ عبد اللہ نے کہا کہ شورش پسندوں کی جانب سے فائر بندی کے نتیجے میں تشدد کے خاتمے کی وجہ سے بات چیت کا آغاز ہوسکتا ہے۔

کونسل کے سربراہ کی حیثیت سے ذمہ داری قبول کرنے کے بعد اپنی پہلی پریس کانفرنس میں عبداللہ عبداللہ نے کہا: 'جنگ بندی کے اعلان، تشدد میں کمی اور قیدیوں کے تبادلے نے ایک اچھی شروعات کی راہ ہموار کردی ہے۔'

انہوں نے کہا: 'مذاکراتی ٹیم کسی بھی وقت بات چیت کے آغاز کے لیے تیار ہے۔'

تاہم انہوں نے مذاکرات کے دوران ایک تازہ جنگ بندی پر اصرار کیا۔

عیدالفطر کے موقع پر طالبان نے ایک غیر معمولی تین روزہ جنگ بندی کی پیش کش کی تھی، جو منگل کی رات ختم ہوگئی۔

حکام نے جنگ بندی کے خاتمے کے بعد سے سکیورٹی فورسز کے خلاف کچھ جان لیوا حملوں کا الزام طالبان پر عائد کیا ہے، لیکن ساتھ ہی انہوں نے پورے ملک میں مجموعی طور پر تشدد میں کمی کا اعتراف بھی کیا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دوسری جانب افغان حکومت نے جنگ بندی کے اعلان کے ردعمل کے طور پر سینکڑوں طالبان قیدیوں کو رہا کیا۔

واضح رہے کہ 29 فروری کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امریکہ اور افغان طالبان کے مابین ایک تاریخی معاہدہ ہوا تھا، جس کے بعد یہ امید کی جارہی تھی کہ اس سے گذشتہ کئی برسوں سے شورش کے شکار ملک افغانستان میں امن کی راہیں کھلیں گی۔

 اس معاہدے میں یہ طے پایا کہ نہ صرف امریکہ مئی 2021 تک اپنی فوجوں کا انخلا کرے گا بلکہ امریکہ اور طالبان، افغان فریقین کے مابین مذاکرات سے پہلے ہزاروں قیدیوں کا تبادلہ کریں گے۔

 افغان حکومت اور طالبان کے مابین امن مذاکرات کا آغاز 10 مارچ سے پہلے ہونا تھا، تاہم قیدیوں کی رہائی کے معاملے پر یہ مذاکرات تاخیر کا شکار ہوگئے تھے۔

اس ماہ کے شروع میں صدر اشرف غنی کے ساتھ سیاسی کشیدگی کے خاتمے کے بعد عبداللہ عبداللہ کو امن مذاکرات کی قیادت کرنے کے لیے مقرر کیا گیا تھا۔ طاقت کی تقسیم کے اس سے پہلے ہونے والے معاہدے کے تحت عبداللہ عبداللہ افغانستان کے چیف ایگزیکٹو رہ چکے ہیں۔

تاہم گذشتہ برس ستمبر میں ہونے والے انتخابات کے نتائج کو مسترد کرنے کے بعد انہوں نے خود کو حریف صدر کے طور پر متعارف کروایا تھا۔ ان انتخابات میں اشرف غنی فاتح قرار پائے تھے۔

عبداللہ عبداللہ کی مذاکراتی ٹیم کے ایک رکن نے بتایا کہ اس تنازع کے خاتمے کے بعد افغان حکومت کی ٹیم متحد دکھائی دی۔

ایک اعلیٰ سرکاری اہلکار متین بیک نے کہا: 'ہم ایک پیج پر نہیں تھے، لیکن اب ہم سب متحد ہیں (ہم سب امن کے سوال پر ایک ہی پیج پر ہیں)۔'

انہوں نے کہا کہ طالبان کے ساتھ بات چیت اگلے ماہ شروع ہوسکتی ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا