کراچی میں سکھوں کا قدیم گردوارہ تباہی کا شکار

ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں سکھوں کی آبادی چار ہزار ہے مگر ان کے لیے واحد گردوارہ کھنڈر بن چکا ہے۔

گردوارہ   خستہ حالی کی تصویر بن چکا ہے (عبادالحسن عثمانی)

برصغیر پاک و ہند میں وجود پانے والا مذہب سکھ مت اس خطے کے بڑے مذاہب میں شامل ہے، اس مذہب کے ماننے والے بابا گُرو نانک کی تعلیمات پرعمل کرتے ہیں اور انہیں اپنے لیے نجات دہندہ تصور کرتے ہیں۔ قیام پاکستان سے قبل سکھ برادری سے تعلق رکھنے والے تاجر مشرقی پنجاب سے سمندر کنارے آباد ماہی گیروں کی قدیم بستی ’کولاچی‘ میں تجارت کی غرض سے آیا کرتے، اچھی تجارت اور ملازمت کے وافر مواقع دستیاب ہونے پر سکھوں نے آہستہ آہستہ ماہی گیروں کی اس بستی کو اپنا مستقل جائے سکونت بنا لیا۔

سکھوں نے کراچی میں سکونت اختیار کی تو اپنے لیے عبادت گاہوں کا قیام بھی عمل میں لائے، ابتدائی طور تعمیرکی جانے والی عبادت گاہوں میں رتن تلاؤ گردوارہ بھی شامل ہے جو پریڈی تھانے کے سامنے موجود نبی باغ زیڈ ایم کالج کے احاطے میں قائم ہے۔ اس گردوارے کو سکھوں نے نہایت عالیشان طرز پرتعمیر کیا، جس کے خدوخال آج بھی عمارت کی عظمت کی گواہی دیتے ہیں۔

یواین گلوبل پبلک افیئر کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ملکی آبادی کا صرف پانچ فیصد حصہ اقلیتوں پرمشتمل ہے۔ ملک کے وجود میں آنے کے بعد بھارت میں ہندومسلم فساد زوروں پر تھے، پاکستان میں اس کے ردعمل سے بچنے کے لیے ہندو، مسیحی، پارسی، بہائی، سکھ اور بدھ مت بڑی تعداد میں پاکستان چھوڑ گئے، جس کے باعث پاکستان میں اقتلیتوں کی تعداد انتہائی کم رہ گئی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

آزادی کے بعد سکھ برادری کی بھی بڑی تعداد پاکستان سے مشرقی پنجاب چلی گئی۔

پاکستان سکھ کونسل کے فوکل پرسن رمیش سنگھ خالصہ بتاتے ہیں: ’رتن تلاؤ گردوارہ ہمارا آنگن تھا۔ یہاں ہم کھیلے بھی ہیں مگر جب آہستہ آہستہ ہمارے لوگ یہاں سے روانہ ہوئے تو یہ آنگن ویران ہو گیا اور یہاں اب سوندھی خوشبو کی جگہ گندگی کے ڈھیر قائم ہیں، پھولوں کی جگہ کچرا اورعبادت کی جگہ اب یہاں کالج بنا دیا گیا ہے، ساتھ ہی ساتھ گردوارے کے اطراف مسجد اور مدرسہ بنانے کے لیے بھی جگہ فراہم کر دی گئی، مگر جو جگہ رتن تلاؤ گردوارے کی ہے وہ ہمیں آج تک واپس نہیں کی جا رہی۔‘

انہوں نے بتایا کہ وہ 1994 سے حکومت پاکستان سے رتن تلاؤ گردوارے کے حصول کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ کئی بار وزیر تعلیم، محکمہ اقلیتی امور سمیت وزیراعلیٰ کے سیکریٹری سے بھی گردوارے کے حصول کے لیے درخواست کر چکے ہیں مگر طفل تسلیوں کے علاوہ کچھ ہاتھ نہیں آیا۔

’اب وزیر اعظم عمران خان نے ملک بھرمیں گردوارے بنانے کا اعلان کیا ہے تو امید کی کرن نظر آئی ہے کہ ہماری قدیم عبادت گاہ رتن تلاؤ گردوارے کو بھی ہمارے حوالے کردیا جائے گا۔‘

رمیش سنگھ کا کہنا تھا: ’گردوارے کی حالت نہایت خستہ ہو چکی ہے، حکومت کی جانب سے اقلیتی عبادت گاہوں کے لیے جو فنڈ دیا جاتا ہے وہ بھی ہم تک نہیں پہنچ پاتا، شہر کے تمام گوردواروں کے اخراجات سکھ برادری خود ہی اٹھا رہی ہے۔

سندھ حکومت کے محکمہ اقلیت امور سے رتن تلاؤ گردوارے سے متعلق جاننے کے لیے رابطہ کیا گیا، جس پرمحکمہ اقلیت امور کے فوکل پرسن فدا حسین نے بتایا: ’یہ گردوارہ ایک تاریخی ورثہ ہے جس پر وزیر اقلیتی امور اور سکھ برادری کے درمیان بات چیت جاری ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’رتن تلاؤ گردوارے کی جگہ پر کچھ قانونی پیچیدگیاں ہیں جنہیں حل کرنے کی کوششں کر رہے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سکھ برادری کی تعداد میں بھی اب اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ آخری مردم شماری کے مطابق شہر کراچی میں سکھوں کی تعداد چار ہزار کے قریب تھی اوراس کو مد نظررکھتے ہوئے ضلع جنوبی میں گردوارے کی جگہ تلاش کر کے سکھ کمیونٹی کے سپرد کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔‘

البتہ انہوں نے اقلیتی عبادت گاہوں کے لیے ملنے والا فنڈ فراہم نہ کرنے کی تردید کی۔

رتن تلاؤ گردوارے کے قریب رہائش پذیر شہری عامر مصطفیٰ کہتے ہیں کہ ان کی پیدائش اس ہی علاقے میں ہوئی اور وہ رتن تلاؤ گردوارے کو بجپن سے ہی دیکھ رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کی خستہ حالی کی بڑی وجوہات میں سکھ برادری کی اپنی عدم دلچسپی اور حکومت کی جانب سے اس جگہ کو اپنی تحویل میں لینا شامل ہیں۔ ’سکھ افراد یہاں اب آنا شروع ہوئے، ہمارے بچپن میں یہاں کوئی نہیں آیا کرتا تھا، رتن تلاؤ ایک خوبصورت جگہ تھی جو عدم توج ہی کے باعث دیکھتے ہی دیکھتے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئی ہے۔‘

شہر قائد کے پریڈی تھانے کے باہر شاہراہ سے گزرتے ہوئے اس چیز کا احساس ہی نہیں ہو پاتا کہ یہاں بھی کوئی عبادت گاہ موجود ہے، کیونکہ نبی باغ کالج کی تعمیرکے بعد رتن تلاؤ گوروارہ کالج کے احاطے میں آچکا ہے، کالج کے اندر داخل ہونے پرگردوارہ درست حالت میں معلوم ہو گا مگر جیسے ہی اس میں داخل ہوں تو قدیم خستہ حال عمارت آپ کا استقبال کرے گی۔

جو عمارت کبھی عبادت کا مرکز ہوا کرتی تھی، جو صحن دن رات خوشبوؤں سے مہکا کرتا تھا، آج وہاں زمین کچرے سے ڈھکی ہوئی ملتی ہے، گردوارے کی چھت تو جیسے غائب ہو چکی ہے، اطراف میں جھاڑیاں اور گندگی کے ڈھیر موجود ہیں، دیواروں پرلگا پلاسٹر تقریباً اکھڑ چکا ہے، جس سے اندرموجود اینٹیں صاف عیاں ہو چکی ہیں۔

اگر گردوارے کا فرش صاف کیا جائے تو سکھوں کے بنائے گئے نقش آج بھی ضرور دکھائی دیتے ہیں، ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے عرصہ دراز سے اس قدیم ورثے کی جانب کسی نے پلٹ کر نہیں دیکھا۔

ڈر ہے کہ اگر طرز تعمیر کے اس شاہکار گردوارے کی اب بھی مرمت نہیں کی گئی توچند سال بعد اس کے بچے کچے کھنڈرات یوں ختم ہو جائیں گے جیسے ان کا کبھی وجود ہی نہیں تھا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ