طفیل متو: انصاف سے انکار کی ایک دہائی

بھارت کے زیرانتظام کشمیر کے 17 سالہ طفیل متو11 جون 2010 کو ٹیوشن سے واپسی پر گھر سے کچھ کلومیٹر دور سر پر شیل لگنے سے ہلاک ہو گئے تھے۔ ان کے والد آج بھی انصاف کے منتظر ہیں۔

اشرف متو ہر سال کی طرح اس بار بھی اپنے 17 سالہ بیٹے طفیل اشرف متو کی قبر پر فاتحہ خوانی کے لیے روانگی سے پہلے سیدا کدل رویناوری میں موجود اپنے گھر کے صحن میں بکھری پھولوں کی سرخ و سفید پتیاں چن رہے ہیں۔ آج ان کے بیٹے کی دسویں برسی ہے، جو سری نگر کے ایک پرانے شہدا قبرستان میں دفن ہے۔

طفیل متوجمعہ 11 جون 2010 کو ٹیوشن سے واپسی پر گھر سے کچھ کلومیٹر دور راجوڑی کدل میں واقع غنی میموریل سٹیڈیم کے قریب سر پر شیل لگنے سے ہلاک ہو گئے تھے۔ طفیل متوکی ہلاکت کے بعد ایک شورش پھوٹ پڑی جس میں سرکاری رپورٹس کے مطابق 110 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اشرف متو کے ساتھ ساتویں جماعت کے طالب علم وامق فاروق کے والد فاروق احمد بھی موجود ہیں۔ وامق فاروق بھی اسی سال 31 جنوری کو غنی میموریل سٹیڈیم کے قریب ہلاک ہوئے تھے۔

فاروق احمد ہر سال اشرف متو کے ساتھ طفیل کی برسی پر دعا کرنے جاتے ہیں اور اشرف بھی وامق کی برسی کے دن فاروق کا ساتھ دیتے ہیں۔

اشرف کے نو عمر ہمسائے اور طفیل کے سکول میں پڑھنے والے زاہد کہتے ہیں: 'اشرف اور فاروق اپنے بیٹوں کی ہلاکت پر انصاف مانگنے میں ایک دوسرے کے ساتھی ہیں اور یہ ان چند افراد میں سے ہیں جو طویل عرصے سے یہ مقدمہ لڑ رہے ہیں۔ میں نے ہمیشہ ان کو ساتھ دیکھا ہے۔'

زاہد یاد کرتے ہیں کہ کیسے طفیل کے جنازے پر آنسو گیس پھینکی گئی لیکن اس کے باوجود لوگ طفیل کی میت کو قبرستان تک لے گئے اور ہزاروں افراد اس جنازے میں شریک ہوئے۔

اشرف یاد کرتے ہیں کہ 'کیسے ایک ہمسائے نے ہمیں اطلاع دی کہ طفیل زخمی ہو گیا ہے اور ہسپتال میں موجود ہے۔ ہم فوراً وہاں پہنچے تو میں نے دیکھا کہ وہاں مکمل خاموشی چھائی ہوئی ہے۔ مجھے لگا کہ یہاں کچھ بہت سنجیدہ معاملہ ہو گیا ہے۔ اس دن نے میری زندگی بدل دی۔'

'مجھے انصاف کے لیے عدالت جاتے ہوئے دس سال ہو چکے ہیں لیکن کچھ نہیں ہوا۔ میں سمجھ چکا ہوں کہ انہوں نے خود ہی اپنی جمہوریت پر داغ لگائے ہیں۔ ہم ہمیشہ جمہوریت کا دفاع کرتے رہے ہیں کیونکہ ہم نے انہیں کئی مواقع دیے ہیں لیکن وہ ہمیشہ سے ہی انکار کرتے آئے ہیں۔ یہ ظاہر کرتا ہے وہ اپنی جمہوریت کو دفنا چکے ہیں۔'

کیس کی صورت حال پر بات کرتے ہوئے اشرف کہتے ہیں کہ 'یہ معاملہ ابھی عدالت میں ہے اور ہم ابھی ایک وبا کے دور سے گزر رہے ہیں، یہاں تک کے ہمارے وکیل اور میاں عبدالقیوم جو بار کے سربراہ ہیں اس وقت قید کاٹ رہے ہیں۔ جب وہ ہی موجود نہیں تو میں کس کے پاس جاؤں۔ میں نے سنا تھا کہ عدالتیں غیر جانبدار ہیں لیکن مجھے محسوس ہوتا ہے جب ہمارے مقدمے میں اعلیٰ حکام اور ایس آئی ٹی انہیں بتاتے ہیں کہ کیا کرنا ہے اور وہ اس پر عمل کرتے ہیں۔'

قبرستان میں طفیل کے اہل خانہ سمیت کئی اور افراد بھی موجود ہیں جو اپنے پیاروں اور رشتہ داروں کی قبروں کے گرد کھڑے ہیں۔ اشرف اپنے بیٹے طفیل کی قبر پر ایک چھوٹا سا پلے کارڈ لگا رہے ہیں جس پر لکھا ہے: 'ان کو شرم آنی چاہیے جنہوں نے شہدا کی وادی میں ان کے ساتھ ہاتھ ملایا جنہوں نے ہمارے معصوم لوگوں کو ہلاک اور نابینا کیا۔' جس کے بعد وہ اپنے بیٹے کی قبر پر پھولوں کی پتیاں ڈالتے ہیں اور ان کے چچا وہاں قرآن کی تلاوت کرتے ہیں تاکہ مرحوم کی روح کے سکون کی دعا کی جا سکے۔

دعا ختم کرنے کے بعد وہ اگلے قبرستان کی جانب بڑھ جاتے ہیں جو غنی میموریل سٹیڈیم ہے جہاں طفیل متوکو شیل لگا تھا اور ان کے سر کے ٹکڑے مقامی افراد نے دفنائے تھے۔ وہاں پہنچ کر اشرف متو وہ جگہ تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو جھاڑیوں میں گھر چکی ہے۔ قریب موجود گھروں کی کھڑکیوں سے خواتین دیکھ رہی ہیں۔ ایک خاتون ان کو راستہ بتاتی ہیں، جہاں سنگ مرمر کی ایک تختی موجود ہے۔ اشرف وہاں پہنچ کر وہ ٹوٹی ہوئی تختی اٹھاتے ہیں۔ تختی پر تفصیلات درج ہیں۔ وہ اسے جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ تختی پر طفیل اور اشرف کے نام ٹوٹ کر الگ الگ ہو چکے ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا