چرچل کی تصویر سرچ سے غائب ہونے پر گوگل کی معذرت

گوگل کی جانب سے واقعے کی تحقیقات سے متعلق بیان اس وقت جاری کیا گیا جب سابق برطانوی وزیراعظم ونسٹن چرچل کی تصاویر گوگل پر برطانوی وزرائے اعظم کی دیگر تصاویر میں سے غائب ہوگئیں۔

برطانوی وزیراعظم  ونسٹن چرچل کی 10 مئی 1947 کو لی گئی ایک تصویر (اے ایف پی)

گوگل کا کہنا ہے کہ وہ سابق برطانوی وزیراعظم ونسٹن چرچل کی تصاویر گوگل سرچ سے غائب ہونے کی وجہ تلاش کرے گا۔

اتوار کو گوگل کی جانب سے یہ بیان اس وقت جاری کیا گیا جب ونسٹن چرچل کے نسل پرستانہ ماضی کے حوالے سے پیدا ہونے والے تنازع کے دوران ان کی تصاویر گوگل پر برطانوی وزرائے اعظم کی تصاویر میں سے غائب ہوگئیں۔

گوگل کا کہنا ہے کہ چرچل کی تصاویر کا سرچ میں سے غائب ہونا دراصل ایک آٹومیٹک اپ ڈیٹ کا نتیجہ ہے اور ایسا 'جان بوجھ' کر نہیں کیا گیا۔ گوگل کی جانب سے اس واقعے پر 'دل آزاری' پر معافی بھی مانگی گئی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

گوگل کا کہنا ہے کہ یہ مسئلہ صرف 'نالج گراف' سرچ کے دوران آ رہا ہے اور چرچل کی کئی تصاویر با آسانی تلاش کی جا سکتی ہیں۔ گوگل کی جانب سے ٹوئٹر پر جاری بیان میں کہا گیا: 'ہم جانتے ہیں کہ سر ونسٹن چرچل کی ایک تصویر نالج گراف سرچ سے غائب ہے۔ ہم کسی تشویش پر معذرت کرتے ہیں۔ ایسا جان بوجھ کر نہیں کیا گیا اور یہ مسئلہ جلد حل ہو جائے گا۔ ایسی سرچ میں تصاویر خودبخود اپ ڈیٹ ہوتی ہیں اور یہ مختصر وقت کے لیے غائب بھی ہو سکتی ہیں۔'

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اس اپ ڈیٹ کے بعد سوشل میڈیا پر اس حوالے سے کافی سخت ردعمل دیکھنے میں آیا ہے۔

قدامت پسند رکن پارلیمنٹ سیمون کلارک کہتے ہیں: 'حیران کن ہے اگر گوگل کی جانب سے یہ پالیسی کے تحت کیا گیا ہے۔ مغربی یورپ یقینی طور پر غلام ہوتا اگر وہ شخص نہ ہوتے جن کی تصویر غائب ہے۔'

دوسری عالمی جنگ کے دوران برطانیہ کے وزیر اعظم رہنے والے ونسٹن چرچل اس وقت تنازع کا شکار ہو گئے جب لندن میں گذشتہ ہفتے 'بلیک لائیوز میٹر' کے احتجاج کے دوران ان کے مجسمے کو 'نسل پرست' کے لفظ کے ساتھ مسخ کر دیا گیا تھا۔

چرچل کے مجسمے کو مسخ کیے جانے کی بڑے پیمانے پر مذمت کی گئی تھی لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ چرچل نے اپنے طویل سیاسی کیریئر کے دوران غیر سفید فام افراد سے مسلسل نفرت اور تعصب کا رویہ ظاہر کیا تھا، جن میں ان کی پالیسیوں کے نتیجے میں بنگال میں 1943 کے دوران آنے والے قحط بھی شامل تھا، جس کے نتیجے میں لاکھوں افراد کی اموات ہوئی تھیں۔

موجودہ وزیر اعظم بورس جانسن جنہوں نے ونسٹن چرچل کی سوانح عمری بھی لکھی ہے، نے چرچل کے مجسمے کو مسخ کیے جانے کو 'بے ہودہ اور شرمناک' قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ نسل پرستی کے خلاف ہونے والے احتجاج کو 'شدت پسندوں نے ہائی جیک' کر لیا ہے۔

ہفتے کو ہزاروں افراد، جن کو دائیں بازو والے شدت پسند گروہوں کی حمایت حاصل ہے، سینٹرل لندن میں اس مجسمے اور یادگاروں کی حفاظت کے لیے جمع ہوئے۔

اس اجتماع کے شرکا اور پولیس کے درمیان ہونے والی جھڑپوں میں چھ پولیس اہلکار زخمی ہوئے جبکہ سو سے زائد شرکا کو گرفتار بھی کیا گیا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ٹیکنالوجی