ہسپتال میں سی ٹی ڈی اہلکار نے ڈاکٹر کو گولی کیوں ماری؟

کراچی میں امراض قلب کے ہسپتال میں گذشتہ رات سی ٹی ڈی کے اہلکار نے ہسپتال میں داخل ہو کر ڈیوٹی پر موجود ایک ڈاکٹر کو گولی مار دی۔

زخمی ہونے والے ڈاکٹر کا نام فہد ہے جن کی عمر 28 سال ہے (ڈاکٹر فہد/ فیس بک)

کراچی میں امراض قلب کے ہسپتال نیشنل انسٹیٹیوٹ اور کارڈیو ویسکیولر ڈزیزس (این آئی سی وی ڈی) میں گذشتہ رات کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) کے اہلکار نے ہسپتال میں داخل ہو کر ڈیوٹی پر موجود ایک ڈاکٹر کو گولی مار دی۔

زخمی ہونے والے ڈاکٹر کا نام فہد ہے جن کی عمر 28 سال ہے۔ ڈاکٹر فہد کی بائیں ٹانگ میں گٹھنے کے اوپر گولی لگی ہے۔

ڈاکٹر فہد کے سینئیر اور این آئی سی وی ڈی میں ایمرجنسی کے انچارج ڈاکٹر زاہد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ڈاکٹر فہد کی حالت خطرے سے باہر ہے۔

 گولی لگنے کے فوراً بعد ہی ان کا خون روکنے کے لیے اقدامات کر لیے گئے تھے لیکن تب تاک کافی خون بہہ چکا تھا۔ تاہم گذشتہ رات ہی ڈاکٹر فہد کو کراچی کے نیشنل سٹیڈیم روڈ پر واقع آغا خان ہسپتال میں داخل کروایا گیا تھا جہاں وہ ابھی بھی ایڈمٹ ہیں۔

انہیں گولی مارنے والے سی ٹی ڈی اہلکار کی شناخت کامران کے نام سے ہوئی ہے جو منگل کی رات بھی این آئی سی وی ڈی ہسپتال آئے تھے لیکن اس وقت ڈاکٹر پرکاش ایمرجنسی میں ڈیوٹی پر موجود تھے۔

اس رات اہلکار کامران کی ڈاکٹر پرکاش سے تلخ کلامی ہوئی جس کے بعد اہلکار اگلے دن آنے کی دھمکی دے کر چلا گیا تھا۔

این آئی سی وی ڈی میں ایمرجنسی کے انچارج ڈاکٹر ذاہد نے تلخ کلامی کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ ’اس رات یہ سی ٹی ڈی اہلکار آیا اور اس نے ڈاکٹر سے نیند کا انجیکشن لگانے کو کہا جس پر ڈاکٹر نے انکار کر دیا کیوں کہ یہ امراض قلب کا ہسپتال ہے اور اس وقت اس اہلکار کو دل کا کوئی مسئلہ نہیں تھا۔‘

’ڈاکٹر پرکاش نے اس لیے انکار کیا کیوں کہ ایسے ہی کسی کو نشہ آور دوا یا انجیکشن دینا غیر قانونی ہے۔ اس استعمال طبی مقاصد کے لیے ہی ہوتا ہے۔ میں پراکاش کو اچھی طرح جانتا ہوں، وہ بہت ہی ٹھنڈے دماغ کا لڑکا ہے اور عام طور پر کسی سے بحث نہیں کرتا۔‘

اہلکار کامران اگلے روز دبارہ آئے لیکن ڈیوٹی پر ڈاکٹر پرکاش کے بجائے ڈاکٹر فہد تھے۔

اس رات حادثے کے دوران ایمرجنسی میں موجود فہد کے ساتھی ڈاکٹر نے اپنا نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر پورا منظر بیان کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’کل رات ایک پولیس والا ایمرجنسی میں آیا اور اس نے سٹاف سے پوچھا کہ جو ڈاکٹر کل یہاں ڈیوٹی پر موجود تھا وہ کہاں ہے۔ اس پر سٹاف نے اسے بتایا کہ کل والے ڈاکٹر آج موجود نہیں ہیں لیکن ان کی جگہ ڈاکٹر فہد ہیں۔‘

’یہ جاننے کے بعد وہ شخص فہد کے سامنے والی سیٹ پر آ کر بیٹھ گیا۔ اس نے فوراً سے گن نکالی اور گارڈ کی طرف گولی چلائی۔ گارڈ گولی سے بچ گیا لیکن وہاں سے فرار ہو گیا۔ اس کے بعد اس نے گن کا رخ فہد کی طرف کیا اور اس کی ٹانگ پر گولی مار دی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ڈاکٹر فہد کے ساتھی ڈاکٹر نے مزید بتایا کہ ’گولی لگنے کے بعد فہد نے اپنی سیٹ سے اٹھ کر بھاگنے کی کوشش کی تو سی ٹی ڈی اہلکار نے اس سے کہا کہ میں دیکھتا ہوں تو بھاگ کر کہاں جاتا ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’دوسری گولی لگنے کے بعد فہد زمین پر گر گیا مگر اس نے اٹھ کر باتھ روم کی طرف جانے کی کوشش کی۔ یہ کرنے کے بعد وہ پولیس والا کافی دیر تک ڈاکٹروں کے بارے میں بری بھلی باتیں کہتا رہا اور اس نے ہمیں دھمکایہ کہ اگر ہم 15 پر بھی کال کرکے یہ سب بتائیں گے تو اسے کچھ نہیں ہوگا۔ اس نے یہ باتیں تقریباً پندرہ منٹ کیں اس کے بعد وہ وہاں سے چلا گیا۔‘

ڈاکٹر فہد کے ساتھی کے مطابق اس وقت ایمرجنسی میں موجود تمام ڈاکٹرز نے بینڈیج کے ذریعے فہد کا خون روکنے کی کوشش کی مگر گولی لگنے کے باعث کافی خون بہہ چکا تھا۔

ساتھی ڈاکٹرز کے مطابق یہ اہلکار ان کے پیچھے جناح ہسپتال بھی پہنچا تھا لیکن وہاں اسے پولیس نے پکڑ لیا۔

تاہم اس معاملے کے حوالے سے ایس ایس پی ساؤتھ شیراز نزیر کا کہنا تھا کہ صدر تھانے میں زخمی ڈاکٹر کی مدعیت میں مقدمہ اقدام قتل کی دفعات کے تحت درج کر لیا گیا ہے۔

ملزم اہلکار ڈاکٹر پر حملہ کرنے کے بعد سی ٹی ڈی سول لائنز آیا تھا۔ وہاں اس نے شور شرابہ کیا اور بتایا کہ اس نے ڈاکٹر کو فائرنگ کر کے زخمی کر دیا ہے جس کی تصدیق صدر پولیس سے کرنے کے بعد ملزم کو گرفتار کر کے صدر پولیس کے حوالے کر دیا گیا۔

دوران تفتیش پولیس کو دیے بیان میں سی ٹی ڈی اہلکار کا کہنا تھا کہ ’میری طبیعت بہت خراب تھی میں ایمرجنسی میں ہسپتال آیا تھا، پہلے ماسک پھر لائن میں لگنے کے معاملے پر کچھ تلخ کلامی ہوئی

’ڈاکٹر پرکاش نے مجھے گالیاں دیں جس پر میں وہاں سے واپس چلا گیا مگر میں نے جاتے جاتے ڈاکٹر کو دھمکی دی کہ میں کل آکر اسے چھوڑوں گا نہیں۔‘

اپنے بیان میں ان کا کہنا تھا کہ ’میں ڈاکٹرز کی بے حسی کی وجہ سے انہیں سزا دینا چاہتا تھا۔ اس لیے گھر سے پانچ گولیاں ڈال کر نکلا تھا۔‘

این آئی سی وی ڈی میں ایمرجنسی کے انچارج ڈاکٹر ذاہد نے الزام لگایا کہ یہ ڈاکٹرز کے لیے بہت عام بات ہے کہ اکثر رات کے اوقات میں پولیس اہلکار ہسپتال آکر انہیں نیند اور نشہ آور دوائیوں کے انجیکشن لگانے کا کہتے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان