قبائلی اضلاع میں موثر پولیسنگ کا دعویٰ مگر حقیقت کیا ہے؟

آئی جی خیبرپختونخوا ڈاکٹر ثنا اللہ عباسی کا دعویٰ ہے کہ قبائلی اضلاع میں جرائم میں کمی آئی ہے تاہم رہائشیوں کا کہنا ہے کہ پولیس کا نظام اب بھی اتنا مضبوط نہیں۔

رپورٹ کے مطابق اسی طرح رواں سال پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں پر حملوں میں بالترتیب 70 اور 50 فیصد کمی واقع ہوئی (فائل تصویر: اے ایف پی)

گذشتہ ہفتے انسپکٹر جنرل آف پولیس خیبرپختونخوا ڈاکٹر ثنا اللہ عباسی کی زیرصدارت اعلیٰ پولیس افسروں کی ایک ویڈیو لنک کانفرنس میں قبائلی اضلاع میں پچھلے پانچ ماہ کے دوران دہشت گردی، اغوا برائے تاوان، ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری اور دیگر جرائم کے خلاف پولیس اقدامات کا جائزہ لیا گیا۔

 کانفرنس میں پیش کی گئی پولیس رپورٹ سے یہ بات سامنے آئی کہ قبائلی اضلاع میں بہترین اور موثر پولیسنگ کی بدولت پچھلے پانچ ماہ کے دوران دہشت گردی کے واقعات میں 50 فیصد، اغوا برائے تاوان میں 100 فیصد، ٹارگٹ کلنگ میں 80 فیصد جبکہ بھتہ خوری اور دہشت گردوں کی مالی معاونت میں 75 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔

اسی طرح رواں سال پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں پر حملوں میں بالترتیب 70 اور 50 فیصد کمی واقع ہوئی۔ اس دوران پولیس نے 134 خطرناک دہشت گردوں کو گرفتار کیا جبکہ مختلف کارروائیوں میں 52 دہشت گرد مارے گئے۔

اعداد و شمار

اسلام آباد میں قائم تحقیقی ادارے فاٹا ریسرچ سینٹر کی رپورٹ کے مطابق 2019 کے دوران 160 دہشت گردی کے واقعات رپورٹ ہوئے۔ ان میں فورسز پر سب سے زیادہ 54 حملے کیے گئے جبکہ سویلین پر 48 حملے ہوئے۔

ادارے کے مطابق 2019 کے دوران دہشت گردوں کے حملوں میں سکیورٹی فورسزکے 54 اہلکار ہلاک اور107 زخمی ہوئے جبکہ سکیورٹی فورسز کی جانب سے مختلف کارروائیوں میں 16 دہشت گرد ہلاک اور10زخمی ہوئے۔ دہشت گردوں کے حملوں میں 34 سویلین ہلاک اور52 زخمی ہوئے، امن لشکر کے چھ اہلکار ہلاک اور دو زخمی ہوئے۔ گذشتہ سال دہشت گردی اور حملوں کے سب سے زیادہ 45 واقعات شمالی وزیرستان میں پیش آئے، جنوبی وزیرستان میں 27، باجوڑمیں 12، خیبر میں 12 اور اورکزئی میں ایک واقعہ رپورٹ ہوا جبکہ کرم واحد قبائلی ضلع ہے جہاں کوئی واقعہ نہیں ہوا۔

دوسری طرف قبائلی اضلاع میں رواں سال اب تک دہشت گردی کی کارروائیوں کے حوالے سے تحقیقی ادارے زلان کمیونیکیشنز کے اعداد وشمار کے مطابق سکیورٹی فورسز پر حملوں، بم دھماکوں، راکٹ حملوں اور ٹارگٹ کلنگ کے 49 واقعات ہوئے جبکہ دہشت گردوں کی سرکوبی کے لیے سکیورٹی فورسز نے مختلف مقامات پر نو آپریشنز بھی کیے۔ سکیورٹی فورسز اور دہشت گردوں کے درمیان جھڑپوں میں مجموعی طور پر سکیورٹی فورسزکے 25 اہلکار ہلاک ہوئے، 41 دہشت گرد مارے گئے جبکہ 46 سویلینز بھی جان سے گئے۔ ان واقعات میں سکیورٹی فورسز کے 17 اہلکار، 10 دہشت گرد اور 17 شہری زخمی ہوئے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

رواں سال کے دوران قبائلی اضلاع میں دہشت گرد اور شر پسند عناصر کی جانب سے سکیورٹی فورسز پر 11 حملے کیے گئے۔ فورسز کی جانب سے جوابی کارروائی بھی ہوئی جس میں 15 اہلکار ہلاک اور 11 زخمی ہوگئے جبکہ 15 دہشت گرد ہلاک اور ایک زخمی ہوا۔ شہریوں پر حملوں کے پانچ واقعات ہوئے، جن میں ایک شہری ہلاک اور ایک زخمی ہوا۔ بم دھماکوں کے 14 واقعات ہوئے، جن میں پانچ سکیورٹی فورسز اہلکار اور پانچ شہری ہلاک ہوئے جبکہ دو دہشت گرد ہلاک ہوگئے۔

ٹارگٹ کلنگ کے مجموعی طورپر 24 واقعات رپورٹ ہوئے، جن میں 34 شہری ہلاک اور چار زخمی ہوگئے۔ رواں سال شمالی وزیرستان اور مہمند قبائلی اضلاع میں سکیورٹی فورسز نے دہشت گردوں کے خلاف نو آپریشنز کیے اور دونوں کے مابین جھڑپیں بھی ہوئیں، جن میں پانچ سکیورٹی فورسز اہلکار ہلاک ہوئے جبکہ 23 دہشت گرد مارے گئے۔ قبائلی اضلاع میں سرحد پار سے راکٹ داغنے کے دو واقعات ہوئے، جن میں سات شہری ہلاک ہوئے۔

عوام ناخوش

ضلع خیبر سے تعلق رکھنے والے قانون دان ولی خان آفریدی نے انسپکٹر جنرل آف پولیس خیبرپختونخوا کے دعوے کے حوالے سے کہا کہ انضمام کے بعد قبائلی اضلاع میں جرائم میں کمی ضرور آئی ہے مگر اس میں پولیس کا کوئی کردار نہیں بلکہ یہ موجودہ سسٹم کی وجہ سے ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ 'پہلے اور موجودہ سسٹم میں فرق یہ ہے کہ پہلے جب کوئی جرم کرتا تھا تو ایف سی آر کے اجتماعی ذمہ داری کے قانون کے تحت خاندان کے بے گناہ اور شریف لوگوں کو گرفتار کیا جاتا تھا، جبکہ ملزم کو کوئی پوچھتا تک نہیں تھا جس کی وجہ سے جرائم پیشہ افراد کو شہ ملتی تھی اور وہ اپنی کارروائیاں جاری رکھتے تھے۔' ان کے مطابق: 'اسی وجہ سے جرائم کی شرح زیادہ تھی اور اب جبکہ سسٹم تبدیل ہوگیا ہے اور اس میں ملزم کو ہی گرفتار ہونا ہے، اس لیے گرفتاریوں کے ڈر سے جرائم پیشہ عناصرباز آگئے ہیں اور جرائم میں کمی آئی ہے۔'

انہوں نے کہا: 'اب اگر موجودہ نظام میں بھی پولیس نے وہی پرانے نظام والا رویہ اپنایا تو جرائم میں اضافہ ہوگا اور حالات خراب ہوں گے۔ پولیس کو آئین و قانون کے دائرے میں رہ کر فرائض انجام دینے ہوں گے۔ پولیس کو چاہیے کہ قبائلی عوام کے ساتھ جرگے کریں اور ان کو اس نئے نظام کے بارے میں سمجھائیں مگر بدقسمتی سے اس حوالے سے ابھی تک کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا۔'

انہوں نے کہا تفتیش کے عمل میں بھی بہت سارے مسائل ہیں، جس کی وجہ سے کیسز پر اثر پڑرہا ہے۔ قبائلی اضلاع میں تفتیش کے ماہر افسران کی ابھی تک تعیناتی نہیں کی گئی ہے، قبائلی پولیس کے کیسز جب عدالتوں میں جاتے ہیں تو ناقص تفتیش کی وجہ سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ پولیس نظام میں اب بھی بہت ساری مشکلات ہیں جبکہ قبائلی اضلاع میں ایف آئی آر بھی ٹھیک درج نہیں کی جاتی ۔

ضلع خیبر کی تحصیل لنڈی کوتل سے تعلق رکھنے والے صحافی اکمل قادری کا کہنا ہے کہ آئی جی خیبرپختونخوا نے قبائلی اضلاع میں جرائم میں کمی کے حوالے سے جو اعدادوشمار پیش کیے ہیں، زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں۔ ان کے مطابق ابھی تک پولیس نے وہ کامیابیاں حاصل نہیں کیں جس کے دعوے کیے جاتے ہیں۔ پولیس میں ابھی تک اصلاحات ہی نہیں متعارف کرائی ہیں جبکہ قبائلی پولیس کو تربیت نہیں دی گئی۔

ان کے بقول: 'غیرتربیت یافتہ اور ناتجربہ کار پولیس کس طرح جرائم پر قابو پائے گی؟ قبائلی اضلاع میں اغوا برائے تاوان، بھتہ خوری، ٹارگٹ کلنگ اور قتل وغارت کے واقعات اب بھی ہو رہے ہیں اور تواتر سے ہو رہے ہیں۔ نامعلوم افراد کارروائیاں کررہے ہیں۔ قبائلی پولیس جدید اور سائنسی بنیادوں پرتفتیش سے ناواقف ہے، ان کے پاس سہولیات نہیں ہیں، لاشوں کے پوسٹ مارٹم نہیں ہوتے، اصلاحات کے نام پر ایسے کام کیے گئے اور کیے جا رہے ہیں کہ قبائلی عوام کو ان کی سمجھ نہیں آرہی ہے۔'

انہوں نے مزید کہا کہ قبائلی پولیس نظام بھی دیگر اضلاع کی طرح ہونا چاہیے۔ 'حکومت کنفیوژ ہے، خاصہ دار اور لیویز بھی کنفیوژ ہیں، کسی کوپتہ نہیں کہ خاصہ دار اور لیویز اور پولیس ایک ہیں یا الگ الگ۔ اس حوالے سے کوئی واضح پالیسی نہیں ہے۔'

دوسری جانب سابق سفارت کار ایاز وزیر بھی کہتے ہیں کہ آئی جی کے اعدادوشمار بالکل غلط ہیں۔ پولیس نظام کے آنے سے قبائلی اضلاع میں کوئی تبدیلی نہیں آئی بلکہ حالات خراب ہورہے ہیں۔

ان کے مطابق: 'یہ علاقہ صدیوں تک ایف سی آر کے تحت چلایا جاتا رہا، یہاں جرگہ سسٹم مضبوط تھا۔ قبائلی عوام اسی سسٹم کے ذریعے اپنے معاملات اور تنازعات حل کرتے تھے۔ انضمام کے وقت قبائلی عوام سے نہیں پوچھا گیا بلکہ انضمام ان پر مسلط کر دیا گیا اور ابھی تک اس حوالے سے کوئی عملی اقدام نہیں اٹھایا گیا۔ یہاں دفاتر نہیں ہیں، انفراسٹرکچر کا نام ونشان تک نہیں، عملے کی کمی ہے، قبائلی اضلاع کے انتظامی افسران ابھی تک قریبی بندوبستی اضلاع میں بیٹھتے ہیں۔ انضمام کے بعد ضروری تھا کہ دفاتر قائم کیے جاتے، پولیس کو تربیت دی جاتی، قبائلی عوام کو پولیس نظام سے باخبر رکھا جاتا، اب قبائلیوں نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ اپنے معاملات وتنازعات مقامی طور پر حل کریں گے مگر حکومت کے پاس نہیں جائیں گے۔'

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ