'پاکستان بننے سے آج تک حکومت نے یہاں ایک اینٹ نہیں لگائی'

ایک مقامی شخص نے اپنے علاقے کے 'غافل' نوجوانوں سے گلہ کیا کہ وہ سوشل میڈیا پر ناچنے، گانے اور موسیقی کے پروگرام شیئر تو کر سکتے ہیں لیکن مجال ہے کہ اپنے گاؤں کے لیے کبھی ایک پوسٹ شیئر کی ہو۔

سترہ غورلامہ گاؤں حکومت کی توجہ چاہتا  ہے۔(رضیہ محسود)

جنوبی وزیرستان کی تحصیل سراروغہ کا گاؤں سترہ غورلامہ زندگی کی تمام تر سہولیات سے محروم ہے۔ یہاں کے رہائشی عبدالوہاب کا کہنا ہے کہ آج کل کے جدید دور میں جہاں لوگ چاند تاروں پر تعمیرات کی باتیں کر رہے ہیں وہیں ہمارے گاؤں کے لوگ سڑک، پانی، ہسپتال سے محروم ہیں۔

ایک مقامی شخص عبدالوہاب نے اپنے علاقے کے 'غافل' نوجوانوں سے گلہ کیا کہ وہ سوشل میڈیا پر ناچنے، گانے اور موسیقی کے پروگرام شیئر تو کر سکتے ہیں مگر مجال ہے کہ اپنے گاؤں کے لیے کبھی ایک پوسٹ شیئر کی ہو۔

'دور جدید میں ہمارے گاؤں میں سڑک سے لے کر طبی سہولیات تک، اگر آسان الفاظ میں کہوں کہ آج تک 150 گھرانوں پر آباد علاقے میں ایک بھی سرکاری سکیم نہیں۔

'نہ سکول، نہ ہسپتال، نہ روڈ۔ یہاں تک کہ پاکستان بننے سے آج تک حکومت نے ایک اینٹ اس علاقے میں نہیں رکھی۔ ورنہ قوم گلیشائی کے کچھ معزز لوگ پورے وزیرستان پر حکومت کرتے چلے آرہے ہیں۔ افسوس اس بات کا ہے کہ آج تک ہمارے علاقے کے لیے حکومت پاکستان نے ایک روپے کا کام نہیں کیا۔'

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

'میں اپنے علاقے کے نوجوانوں سے درخواست کرتا ہوں کہ سوشل میڈیا پر اپنے پسماندہ علاقے کے لیے آواز اٹھائیں تاکہ ہماری آواز اعلیٰ حکام تک پہنچ جائے اور ہمارے علاقے کی حالت زار دنیا کے سامنے آشکار ہو جائے۔'

عبدالوہاب نے کہا کہ 'ہم چیف آف آرمی سٹاف کور کمانڈر پشاور، آئی جی ایف سی ساؤتھ سے گذارش کرتے ہیں کہ ہمیں انسان سمجھ کر ہمارے حال پر رحم فرمائیں اور صوبائی حکومت سے ہمارے بنیادی حقوق دلوانے میں مدد فرمائیں۔'

اسی گاؤں کے ایک اور رہائشی امجد کا کہنا ہے کہ انضمام کے بعد اب ایکس فاٹا کے پی کے ساتھ ضم ہوا ہے اور ہمارا علاقہ اب بھی زمانہ قدیم کی طرح زندگی کی بنیادی سہولیات سے محروم ہے۔

'اس علاقے میں آپ کو کوئی بھی کام یا سکیم نظر نہیں آئے گی۔ اس علاقے کوحکومت کی توجہ چاہیے تاکہ یہاں کے لوگ بھی باقی علاقوں کے لوگوں کی طرح زندگی بسر کرنے کے قابل ہو جائیں اور ہماری آنے والی نسل کو ان مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے جن کا سامنا ہم کر رہے ہیں۔

قبائلی علاقوں کو ترقیاتی فنڈز کی کمی کا اکثر سامنا رہا ہے۔ تاہم عوامی سکایات کے بعد وزیراعظم کے زیرصدارت پیر کو اسلام آباد میں ایک اعلیٰ سطح کے اجلاس میں خیبرپختونخوا کے قبائلی اضلاع میں ترقیاتی منصوبوں کا جائزہ لیا گیا۔ اجلاس سے متعلق بریفنگ دیتے ہوئے وزیر اطلاعات سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ وفاقی حکومت نے 2018 کے معاہدے کے تحت ضم ہونے والے اضلاع کے لیے ان کے حصے کے فنڈز جاری کر دیئے ہیں۔ امید کی جا رہی ہے کہ شاید اب اگلی مالی سال میں ان علاقوں کی ترقی ممکن ہو۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ