دشمنیوں میں بچوں کے ساتھ مائیں بھی مر جاتی ہیں 

یہ واقعات صرف خیبر پختونخوا میں نہیں ملک کے تمام صوبوں میں رونما ہوتے ہیں جہاں چھوٹی چھوٹی باتوں پر دشمنیاں پالی جاتی ہیں اور پھر معصوم لوگ اس کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔

(پکسابے)

آج صبح نماز پڑھ کر جوں ہی کپڑے بدلنے چاہے کہ فائرنگ کی آواز کانوں میں پڑی۔ یہ کوئی ہوائی فائرنگ نہیں تھی بلکہ دبی دبی سی فائرنگ تھی۔ 

دیہی علاقوں کے رہنے والے بہت سے لوگ جانتے ہوں گے کہ ہوائی فائرنگ اور ایک دوسرے پر کی جانے والی فائرنگ کی آواز میں کیا فرق ہوتا ہے۔ 

ہمارا گھر خاصی اونچائی پر واقع ہے جہاں سے گاؤں کا وسیع وعریض علاقہ نظر آتا ہے۔  

ہم نے بھی دوڑ کر فائرنگ کا تعاقب کرتے ہوئے زمینوں کی طرف دیکھا۔ میری طرح بہت سے لوگ چھتوں پر پہنچ گئے تھے وہ بھی میری طرح متجسس تھے کہ کیا ہوا ہے اور کیوں فائرنگ ہوئی ہے۔

حالانکہ گاؤں میں فائرنگ کا ہونا کوئی اچھنبے کی بات نہیں ہوتی، کسی نہ کسی کا دشمن غالب آ کر اپنا کلیجہ ٹھنڈا کر دیتا ہے۔ بچپن سے ایسے واقعات کے عادی ہو چکے ہیں اور ایسے وقت میں ہماری کوشش ہوتی کہ ہسپتال پہنچا جائے کیونکہ زخمیوں اور مرنے والوں کو پولیس سٹیشن اور ہسپتال لازمی لایا جاتا ہے۔ ابھی ہم پہلی فائرنگ کی جگہ کا تعین نہیں کر پائے تھے کہ دوسری جانب سے کراس فائرنگ ہوئی اور پھر ہم نے کچھ لوگوں کو دوڑتے ہوئے دیکھا۔ یعنی کچھ ہو گیا تھا، لیکن کیا، اس کا پتہ نہیں چل رہا تھا۔ 

جلدی ناشتہ کر کے نکلے کیونکہ تین مہینوں کے بعد یونیورسٹی سے بلایا آیا تھا کہ ڈیوٹی پر آنا ہے وہ بھی ایک ٹینشن دوسری جانب ایک مسجد سے اعلان کی صدا بلند ہوئی۔ اور یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگی کہ ہمارے گاؤں کی پینتیس ہزار کی آبادی میں کورونا وائرس سے ایک بندے کی پشاور میں موت واقع ہو گئی ہے اور وہ بندہ بھی بدقسمتی سے ہمارے محلے کا ہے۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

گھر میں ایس او پیز سے وقت گزارنے کا کہہ کر جوں ہی نکلے راستے میں لوگوں کی سویرے سویرے اتنی بڑی تعداد دیکھی جس نے سوچنے پرمجبور کر دیا۔ سارے لوگ چہ مگوئیاں کر رہے تھے اور جہاں ندی بہتی ہے اُس جانب اشارے کر رہے تھے جہاں لوگوں کی کثیر تعداد تھی۔ 

پھر دیکھا کہ لوگ چارپائی پر کسی کو ڈال کر لارہے ہیں۔ اسُی وقت فائرنگ والا واقعہ ذہن میں آیا جو کورونا مریض کی موت کے باعث اوجھل ہو چکا تھا۔ نزدیک جا کر پوچھا کہ کیا ہوا ہے۔ کس نے آج ماں کی گود اُجاڑ دی، بیوی کو جیتے جی مار دیا ہے اور بچوں کے سر پر یتیمی کا تاج رکھ لیا ہے۔ کوئی نہیں بول رہا تھا۔ مگر لگ رہا تھاکہ یہ لوگ جانتے ہیں اور ڈر کی وجہ سے بات چھپا رہے ہیں۔ 

تجسس کا جام چھلکنے کو تھا اور اندر کی صحافتی رگ بھی پھڑک گئی تھی، اس لیے ہسپتال کا رخ کیا کہ وہاں سے کچھ پتہ چلے گا۔ وہاں مجھ سے پہلے درجنوں لوگ بغیر ناشتے کے پہنچ چکے تھے۔ نزدیک ہی پولیس سٹیشن ہے۔ وہاں ایک خاتون پولیس کو صلوٰاتیں سنارہی تھیں کہ میرے بچوں کے قاتل تم لوگ ہو تمھارے سامنے میرے ایک بیٹے کو مارا گیا ہے، تم ان کے شریک ہو۔ خاتون کی آنکھوں میں آنسو نہیں تھے۔ وہ دوڑی دوڑی ہسپتال آئی۔ جہاں اُس کے ایک جگر گوشے کی لاش پڑی تھی۔ اور وہ کہہ رہی تھی کہ ’میرے دوسرے بیٹے کی لاش بھی جلدی لائیں تاکہ اُس سے بھی باتیں کروں۔ اس بیٹے کو صبح ایک نظر دیکھا تھا۔ مگر بات نہیں کی۔ کیا پتہ تھا کہ اب تاعمر بات نہیں ہو گی۔ اگر پتہ ہوتا تو کہتی پستول ساتھ لے کر جاؤ۔ ہمیشہ دشمنوں سے حفاظت کے لیے پستول ساتھ لے جاتے تھے مگر آج کیوں نہیں لے کر گئے۔ مقابلہ تو کر لیتے۔ ایک فائر تم بھی کرتے۔ مگر افسوس تمھیں نہتا پاکر مارڈالا۔ بڑے بزدل قاتل ہیں تمھارے۔‘

اس دوران دوسرے بیٹے کی لاش بھی ہسپتال لائی جا چکی تھی۔ ماں پہلے بیٹے کی چارپائی سے لپٹ کر چیخ رہی تھی تو کبھی دوسری چارپائی کے ساتھ چمٹ رہی تھی۔ میں نے وہاں ایک کی بجائے تین لاشیں دیکھیں۔ کیونکہ بیٹوں کے موت کے ساتھ ماں زندہ لاش میں تبدیل ہو چکی تھی۔ 

یہ صرف ایک واقعہ نہیں۔ روز کے اخبارات قتل مقاتلوں، دشمنیوں کے واقعات سے بھرے ہوتے ہیں۔ یہ واقعات صرف خیبر پختونخوا میں نہیں ملک کے تمام صوبوں میں رونما ہوتے ہیں جہاں چھوٹی چھوٹی باتوں پر دشمنیاں پالی جاتی ہیں اور پھر معصوم لوگ اس کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔ یہ دشمنیاں غیرت، جائیداد، زمینوں اور کبھی کبھار تو تو میں میں سے شروع ہوتی ہیں اور گھر اور قبائل اجاڑ دیتی ہیں، جس میں بچے جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں تو ساتھ میں مائیں بھی جیتے جی مر جاتی ہیں

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ