چین بھارت تنازعے میں پاکستان کے لیے کیا امکانات پوشیدہ ہیں؟

بھارت چین کے ہاتھوں ہزیمت کو پی جائے یا واویلا مچائے، دونوں صورتوں میں پاکستان کا فائدہ نظر آ رہا ہے۔

لداخ کی ایک سرحدی چوکی پر بھارتی فوجی پہرہ دے رہا ہے (روئٹرز)

لداخ میں چین بھارت کشیدگی نے زمینی حقیقتوں کو کیسے متاثر کیا ہے اور کیا اس تازہ صورت حال میں پاکستان کے لیے بھی کچھ سفارتی اور تزویراتی امکانات موجود ہیں؟

سب سے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ لداخ میں کیا صورت حال ہے اور اس میں کیا معنوی تبدیلی واقع ہو چکی ہے۔

لداخ بنیادی طور پرکشمیر کا حصہ ہے اور 1962 میں اروناچل پردیش اور لداخ میں ہونے والے بھارت چین تصادم میں چین نے لداخ کے شمال مشرقی علاقے پر قبضہ کر لیا۔ یہ اکسائے چن کہلاتا ہے۔ 1962 سے اب تک یہاں خاموشی رہی کیونکہ کشمیر ایک متنازع علاقہ ہے اور جو بھی انتظامی معاملات طے ہوئے ان میں یہ بات شامل رہی کہ چیزوں کا حتمی تعین تنازعہ کشمیر کے حتمی حل کے ساتھ ہی ہو گا۔ یعنی جو کچھ بھی ہے اس کی حیثیت ایک عبوری بندوبست کی ہے۔

مبینہ طور 56 انچ چھاتی والی مودی نے سلامتی کونسل کی قراردادوں کو پامال کرتے ہوئے یکطرفہ طور پر آرٹیکل 370 کو ختم کر دیا اور لداخ اور کشمیر کو دو ’یونین ٹیرٹریز‘ یعنی بھارت کا باقاعدہ حصہ بنانے کا اعلان کر دیا۔ یہ صرف پاکستان کے لیے ہی نہیں چین کے لیے بھی ناقابل قبول تھا۔ چین نے اکسائے چن سے سڑک گزار کر تبت کو سنکیانگ سے ملایا ہے۔ اب گویا بھارت نے اس سارے علاقے کو اپنا علاقی قرار دے دیا۔ چین نے اول اقوام متحدہ میں اس پر آواز اٹھائی اور اس اتمام حجت کے بعد اب چین نے آگے بڑھ کر گلوان کی وادی پر قبضہ کر لیا ہے۔ جو لداخ سے اکسائے چن جانے کا واحد دستیاب راستہ ہے۔

گلوان وادی کی اہمیت کو بھی جان لیجیے۔ اکسائے چن کے پہلو میں کوہ قراقرم کا سلسلہ ہے جس کی پاکستان اور چین کے لیے ایک خاص اہمیت ہے۔ یہ سلسلہ اکسائے چن اور لداخ کے بیچ سے گزرتا ہے اور انہیں جدا کرتا ہے۔ گلوان وادی اسی کوہ قراقرم میں واقع ہے۔ یہیں پر دریائے گلوان دریائے شیوک میں شامل ہوتا ہے جو آگے جا کر دریائے سندھ کا حصہ بن جاتا ہے۔ بھارت نے شیوک گاؤں سے ایک سڑک نکالی ہے جو دولت بیگ آلدی تک جاتی ہے۔ یہ سڑک اب چینی افواج کے رحم و کرم پر ہے۔ جب چاہیں دو گولے داغیں اور سڑک بند ہو جائے۔ اس سڑک کا بند ہو جانا بھارت کے لیے کتنا بڑا چیلنج ہے، یہ بھی جان لیجیے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہ سڑک بھارت کا سیاچن گلیشیئر تک پہنچنے کا زمینی راستہ ہے۔ سٹک بند ہو جانے یا چین کے رحم و کرم پر ہونے کا مطلب ہے بھارت کی سیاچن تک سپلائی لائن اب محفوظ نہیں رہی۔ بھارت نے دولت بیگ آلدی میں ایک ایئر پورٹ بھی بنا رکھا ہے جو اب اپ گریڈ ہو چکا ہے۔ سڑک بند ہونے کا مطلب یہ ہے اس ایئر پورٹ کا اس علاقے سے زمینی رابطہ مشکوک ہو چکا۔ اکسائی چن تو بھارت کے لیے شاید اتنا اہم نہ ہو لیکن وادی گلوان اور دریائے شیوک کے ساتھ ساتھ قراقرم کے اس سلسلے میں چین کا بیٹھ جانا بھارت کے لیے کسی صدمے سے کم نہیں۔

بھارت کے عزائم کچھ اور تھے۔ دولت بیگ آلدی اس کے لیے صرف سیاچن تک پہنچنے کا راستہ ہی نہ تھا، یہاں ایئر پورٹ کا اپ گریڈ ہونا اس بات کا اعلان بھی تھا کہ بھارت جب چاہے شاہراہ قراقرم پر آمدورفت روک سکتا ہے اور سی پیک کی عملی افادیت بھارت کے رحم و کرم پر ہے۔ بھارت چاہے گا تو سی پیک فعال رہے گا اور بھارت چاہے گا تو سب کچھ رک جائے گا۔ چین کی وادی گلوان میں آمد کو آپ چاہیں تو سی پیک کے تناظر میں بھی دیکھ سکتے ہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ اس ساری صورت حال میں پاکستان کہاں کھڑا ہے اور کیا اس کے لیے کچھ سفارتی اور تزویراتی امکانات موجود ہیں؟ اس سوال کا جواب اثبات میں موجود ہے۔

بھارت کی بالادستی کو یہ بہت بڑا دھچکہ لگا ہے۔ مودی کی 56 انچ کی چھاتی کا سائز اب چائے کی اس پیالی جتنا رہ گیا ہے جس میں ابھے نندن صاحب نے چائے نوش فرمائی تھی۔ مودی نے اپنے تئیں کشمیر کی متنازع حیثیت ختم کر کے لداخ اور کشمیر کو بھارت کا باقاعدہ علاقہ قرار دے دیا تھا تو اب اس کی لغت میں بات کریں تو گویا بھارت کا علاقہ چین کے قبضے میں ہے۔ سیاچن کو جانے والا واحد زمینی راستہ چین کے رحم و کرم پر ہے۔ اس سے بالادست رعونت کو کافی افاقہ ہو گا اور بھارت میں حزب اختلاف کے لیے گنجائش پیدا ہو گی جو شاید اس جنونی کیفیت سے کسی معقول راستے کو نمایاں کر سکے۔

کشمیر میں خالصتا مقامی مزاحمت جاری ہے۔ نہتے لوگ اس غاصبانہ قبضے کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ بھارت کو جس طرح چین کے ہاتھوں ہزیمت اٹھانا پڑی ہے اس سے مقبوضہ وادی کے سماج کی نفسیات پر بھی ایک اثر پڑے گا۔ فی الوقت کچھ کہنا مشکل ہے کہ یہ نفسیات کا رخ اختیار کرتی ہے لیکن یہ طے ہے کہ اس سے وادی میں جاری عوامی مزاحمت کو زندگی ملے گی اور یہ بھارت کے لیے خاصا تکلیف دہ ہو سکتا ہے۔

بھارت نے بہت سے محاذ کھول لیے ہیں۔ پاکستان اور چین ہی نہیں نیپال سے بھی اس کے تعلقات میں غیر معمولی کشیدگی آ رہی ہے اور نیپال کی پارلیمان نے اپنے ملک کا جو تازہ نقشہ منظور کیا ہے اس میں بھارت کے قبضے میں موجود علاقے کو نیپال کا حصہ قرار دیتے ہوئے اس پر ملکیت کا دعوی کر دیا ہے۔ بھارت خطے میں نیپال یا چین جس سے بھی الجھتا ہے یا جس قدر بھی تناؤ پیدا کرتا ہے پاکستان کومنطقی طور پر اس سے فائدہ ہو گا۔ بھارت معیشت، اور دفاع کے باب میں جمع تفریق کے کسی بھی میزانیے کے اعتبار سے پاکستان سے بڑا ہے۔ وہ کہیں اور سینگ پھنسا لیتا ہے تو پاکستان کے لیے یہ ایک خوش کن صورت حال ہو گی۔

بھارت خاموش رہتا ہے تو گلوان کی وادی میں چین کی موجودگی پاکستان اور چین دونوں کے لیے فائدہ مند ہے۔ بھارت اقوام متحدہ جاتا ہے تو مسئلہ کشمیر ایک بار پھر سلامتی کونسل میں پوری معنویت سے زیر بحث آئے گا اور اس کا فائدہ بھی براہ راست پاکستان کو ہو گا۔ بھارت اس ذلت کو برداشت کرتا ہے یا اقوام متحدہ جاتا ہے دونوں صورتوں میں چین کا مسئلہ کشمیر میں، جزوی طور پر ہی سہی، یوں ایک فریق کے طور پر سامنے آنا پاکستان کے مفادات کے عین مطابق ہو گا۔

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر