ناسا کے خلا باز نے چہل قدمی کے دوران خلا میں آئینہ گرا دیا

خلائی ادارے کے مطابق کمانڈر کرس کسیڈی خلائی سٹیشن سے بیٹریوں کی تبدیلی کے لیے خلا میں جاتے وقت آئینے پر کنٹرول برقرار نہ رکھ سکے اور وہ ایک فٹ فی سیکنڈ کی رفتار سے تیرتا ہوا دور چلا گیا۔

ناسا کے مطابق گم ہونے والا آئینہ خلا میں چہل قدمی یا خلائی سٹیشن کے لیے کوئی خطرہ نہیں ہے (فائل تصویر: اے ایف پی)

خلائی تحقیق کے امریکی ادارے ناسا نے کہا ہے کہ ایک خلانورد نے حادثاتی طور پر ایک چھوٹا سا آئینہ خلا میں گرا دیا ہے۔

خلائی ادارے کے مطابق کمانڈر کرس کسیڈی بین الاقوامی خلائی سٹیشن سے بیٹریوں کی تبدیلی کے لیے خلا میں جاتے وقت آئینے پر کنٹرول برقرار نہ رکھ سکے اور وہ ایک فٹ فی سیکنڈ کی رفتار سے تیرتا ہوا دور چلا گیا۔

اب یہ آئینہ خلا میں موجود اس کوڑے کی بڑی مقدار کا حصہ بن چکا ہے جو زمین کے گرد مدار میں موجود ہے۔

مشن کنٹرول نے کہا ہے کہ آئینہ کسی طرح کسیڈی کے خلائی سوٹ سے الگ ہو گیا، تاہم ناسا کے مطابق گم ہونے والا آئینہ خلا میں چہل قدمی یا خلائی سٹیشن کے لیے کوئی خطرہ نہیں ہے۔

خلا میں چہل قدمی کرنے والے خلانورد اپنی دونوں کلائیوں پر آئینہ پہنتے ہیں تا کہ کام کے دوران وہ بہتر طور پر دیکھ سکیں۔ گرنے والے آئینے کی لمبائی پانچ اور چوڑائی تین انچ ہے اور پٹی سمیت اس کا وزن بمشکل ایک پاؤنڈ کا دسواں حصہ ہے۔

خلا باز کسیڈی اور بوب بینکن، کسی حادثے کا شکار ہوئے بغیر آئینے کے پیچھے لپکے تھے۔ وہ اس دوران چہل قدمی کر رہے تھے جس کا مقصد خلائی سٹیشن کی پرانی بیٹریاں تبدیل کرنا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ناسا کے مطابق ایک بار جب نئی لیتھیئم آئن بیٹریاں نصب دی کر جاتی ہیں تو مدار میں گھومتا خلائی سٹیشن کام کرنے کے قابل ہو جاتا ہے۔ ڈبے جیسی بڑی بیٹریاں نکل ہائیڈروجن پرانی بیٹریوں کے مقابلے میں زیادہ طاقتور اور مؤثر ہیں۔ یہ بیٹریاں اس وقت، جب زمین پر رات ہوتی ہے، خلائی سٹیشن کو فعال رکھتی ہیں۔

بیٹریوں کی تبدیلی 2017 میں شروع ہوئی تھی۔ خلائی سٹیشن کے پرانے عملے نے 18 لتھیئم آئن بیٹریاں نصب کی تھیں۔ اس موقعے پر آدھی پرانی بیٹریاں تبدیل کی گئی تھیں۔

کام مکمل کرنے کے لیے کسیڈی اور بینکن کو مزید چھ بیٹریاں لگانی تھیں۔ یہ ایک مشکل کام ہے۔ ہر بیٹری تقریباً ایک یارڈ (میٹر) لبمی چوڑی ہے جس کا وزن چار سو پاؤنڈ (180 کلوگرام) ہے۔

توقع ہے کہ اگست میں سپیکس ایکس ڈریگن کیپسول کے ذریعے زمین پر واپسی سے پہلے خلانوردوں کی چہل قدمیاں جاری رہیں گے۔

بینکن اور ڈوگ ہرلی نے مئی کے اختتام پر سپیکس ایکس کی پہلی پرواز کے ساتھ تاریخ رقم کر دی تھی۔ یہ دونوں کی خلا میں ساتویں چہل قدمی ہے۔ دونوں خلا میں 30 گھنٹے سے زیادہ وقت گزار چکے ہیں۔

اضافی رپورٹنگ: ایسوسی ایٹڈ پریس

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی سائنس