ہمیں تو منسٹری سے خط آیا قیمتیں بڑھا دو، بڑھا دیں: اوگرا اہلکار

پٹرول کی قیمتوں میں حالیہ اضافے کے بعد نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اوگرا کے اہلکار انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ہمیں تو منسٹری کی طرف سے ایک خط  موصول ہوا جس میں قیمتیں بڑھانے کا کہا گیا۔ اور ہم نے بڑھا دیں۔

(انڈپینڈنٹ اردو)

وزیر اعظم عمران خان کی حکومت نے  غیر معمولی قدم اٹھاتے ہوئے اوگرا کی سمری کے بغیر جون کا مہینہ ختم ہونے سے پانچ روز قبل پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کا فیصلہ کر دیا۔

تیل اور گیس کی صنعت سے تعلق رکھنے والے لوگ اس حکومتی اقدام کو حیرت کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔ جس کے تحت وفاقی حکومت نے اوگرا کو پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھانے کی ہدایت کی۔

قانون کے تحت پاکستان میں تیل اور گیس کی صنعت سے متعلق معاملات کی ذمہ دار ایجنسی آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی یا اوگرا  پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ردو بدل سے متعلق وفاقی حکومت کو مشورہ دینے کی مجاز ہے۔

وفاقی حکومت نے جمعرات کی شام ایک اعلان کے ذریعہ ملک میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کیا۔ جس کے تحت جمعرات اور جمعہ کی درمیانی رات بارہ بجے سے نئی قیمتوں کا اطلاق ہوا۔

حکومتی اعلان کے مطابق چھوٹی گاڑیوں میں استعمال ہونے والے پٹرول (موٹر سپرٹ) کی قیمت 74.52 روپے فی لٹر سے بڑھا کر 100.10 روپے کر دی گئی۔ یعنی 25.58 روپے فی لٹر کا اضافہ۔

اسی طرح ہائی سپیڈ ڈیزل کی قیمت میں 21.31 روپے فی لٹر کے اضافہ کے ساتھ 80.15 روپے سے 101.46 روپے کر دی گئی۔ جبکہ مٹی کے تیل کی قیمت 23.50 روپے فی لٹر اضافہ کے ساتھ 35.56 روپے سے 59.06 روپے کر دی گئی۔ 

یاد رہے کہ یکم جون کو پٹرولیم مصنوعات میں کمی کے بعد ملک بھر میں پٹرول پمپس پر پٹرول غائب ہو گیا تھا۔ اور عوام کو اس کے حصول میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔

اس سلسہ میں حکومت نے پٹرول سپلائی کرنے والی کمپنیوں( او ایم سیز)  پر الزام لگایا۔ جبکہ ان کمپنیوں نے حکومت کی غلط پالیسیوں کو پٹرول کی کمی کا ذمہ دار ٹھرایا۔

غیر معمولی کیا ہے؟

پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ردو بدل سے متعلق قانون (آئل اینڈ گیس  ریگولیٹری اتھارٹی آرڈیننس 2002) کے تحت کیا جاتا ہے۔ اور پیٹرول اور اس کی دوسری مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ یا کمی پاکستان میں تیل اور گیس کے معاملات کی ذمہ دار ایجنسی اوگرا (آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی) ہی کر سکتی ہے۔

اوگرا پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ردو بدل کا اعلان ہر مہینے کی آخری تاریخ کو کرتا ہے۔ قیمتوں میں تبدیلی کا اطلاق اگلے مہینے کے پہلے دن سے ہوتا ہے۔

قانون کے تحت اوگرا کی پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ردو بدل سے متعلق ایک سمری تیار کرتا ہے۔ جسےوفاقی حکومت کو بھجوایا جاتا ہے۔ اور اس سمری وفاقی کابینہ کے سامنے رکھا جاتا ہے۔ کابینہ کی منظوری کے بعد ہی نئی قیمتوں کا اعلان کیا جاتا ہے۔

اوگرا کے ایک سینئیر اہلکار نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پٹرول اور اس کی دوسری مصنوعات کی قیمتوں میں ردو بدل ایک مخصوص طریقہ کار کے تحت کیا جاتا ہے۔جس کے لیے ایک ٹیم کام کرتی ہے۔ جو بین الاقوامی منڈی میں قیمتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک لمبی مشق کے بعد کسی حتمی فیصلہ پر پہنچتی ہے۔

تاہم اس مرتبہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں تبدیلی کے لیے وفاقی حکومت نے غیر معمولی طریقہ کار اختیار کیا۔

غیر معمولی طریقہ کار اپنانے کے باعث وفاقی حکومت نے مہینہ ختم ہونے سے چار روز قبل ہی پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا۔

دوسری اور اہم بات یہ کہ اس مرتبہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں اوگرا نے نہیں بڑھائیں۔ بلکہ وفاقی وزارت پٹرولیم و قدرتی وسائل نے اوگرا کو قیمتوں میں اضافہ کا حکم صادر کیا۔ اور اوگرا نے اس کی تعمیل کی۔

نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اوگرا کے اہلکار نے بتایا: ہمیں تو منسٹری کی طرف سے ایک خط  موصول ہوا جس میں قیمتیں بڑھانے کا کہا گیا۔ اور ہم نے بڑھا دیں۔

مذکورہ خط (جس کی کاپی انڈپینڈنٹ اردو کے پاس موجود ہے) وفاقی وزارت پٹرولیم کے ڈپٹی ڈائریکٹر (ایف اینڈ پی) نے 26 جون کو چئیرمین اوگرا کے نام لکھا۔ جس میں اوگرا کو پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں فی الفور اضافہ کرنے کا کہا گیا۔

اس خط کے مطابق وفاقی حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ پٹرول فراہم کرنے والی حکومتی کمپنی پاکستان سٹیٹ آئل (پی ایس او) کی ورکنگ کے مطابق کیا۔ جو عام طور پر اسی طرح کیا جاتا ہے لیکن اوگرا کے لیول پر۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

خط میں لکھا گیا ہے کہ پی ایس او کی 25 جون کی ورکنگ کے مطابق سپر پٹرول (موٹر سپرٹ) کی قیمت 106.11 روپے فی لٹر اور ہائی سپیڈ ڈیزل کی 104.46 روپے فی لٹر ہونا چاہیے۔ تاہم حکومت نے عوام کو فائدہ پہنچانے کی غرض سے قیمتوں میں بالترتیب چھ اور تین روپے کم اضافہ کا فیصلہ کیا ہے۔

اسی خط میں اوگرا کو بتایا گیا کہ پی ایس او کو بھی پٹرولیم مصنوعات کی ایکس ڈپو قیمتیں 100.11 روپے اور 101.46 روپے فی لٹر تک نیچے لانے کو کہا گیا ہے۔

مذکورہ خط کے مطابق پٹرولیم مصنوعات کی نئی قیمتوں کا اطلاق 31 جولائی تک ہو گا۔

وفاقی حکومت نے پٹرول پر لگنے والی لیوی جو 30 روپے فی لٹر ہے کو بھی تبدیل نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

گذشتہ تیس سال سے پٹرولیم اور گیس کی صنعت سے وابستہ عبداللہ غیاث پراچہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا:  میرے خیال میں اس مرتبہ تو اوگرا نے قیمتوں پر کوئی ورکنگ ہی نہیں کی۔

ان کا کہنا تھا کہ معلوم نہیں حکومت نے یہ قیمتیں پرانا نقصان پورا کرنے کے لیے بڑھائی ہیں یا بین الاقوامی مارکیٹ میں قیمتوں میں اضافہ کی وجہ سے۔

سابق وزیر اعظم اور پاکستان مسلم لیگ نون کے رہنما شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا: پٹرول کی اصل قیمت 55.65 روپے فی لٹر ہے۔ جبکہ حکومت ہر لٹر پر 44.55 روپے ٹیکس وصول کر رہی ہے۔

ان کا خیال تھا کہ حکومت اپنے ٹیکس کے ہدف پٹرولیم مصنوعات میں اضافہ کر کے پورا کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

وفاقی حکومت پٹرولیم مصنوعات پر پٹرولیم لیوی کے علاوہ سیلز ٹیکس اور کسٹم ڈیوٹی بھی وصول کرتی ہے۔

حکومت کا موقف

وزیر اعظم کے معاون خصوصی ندیم بابر کے مطابق 28 فروری کو ملک میں پٹرول کی قیمت 116.60 روپے اور ڈیزل کی 127.26 روپے فی لٹر ہے۔ جو یکم جون کو بالترتیب 42 اور 47 روپے کم  کی گئیں۔ اور اب پٹرول کی قیمت صرف 25 روپے بڑھائی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ساری دنیا میں پٹرول کی قیمت پاکستان سے کم ہے۔ اور اسے کم اسی لیے رکھا گیا ہے کہ عوام کو فائدہ پہنچ سکے۔

ندیم بابر نے مزید کہا کہ چار روز قبل قیمتوں میں اضافہ اس لیے کیا گیا کہ یکم جون کے بعد اضافہ زیادہ کرنا پڑتا۔

وفاقی وزیر توانائی عمر ایوب جمعہ کے روز ٹوئیٹر پیغامات میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں حالیہ اضافہ کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ بین الاقوامی منڈی میں قیمتوں میں اضافہ اور روپے کی قیمت میں گراوٹ کے باعث یہ قدم اٹھانا پڑا۔دوسرے ملکوں سے سستا ہے۔

 انہوں نے کہا بین الاقوامی منڈی میں پیٹرول کی قیمت 112 فیصد بڑھی ہے۔ جس کو دیکھتے ہوئے پاکستان میں پیٹرول کی قیمت میں 41 روپے کا اضافہ ہونا تھا۔ لیکن حکومت نے اسے 25 روپے 58 پیسے تک محدود رکھا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان