کرونا کی اطلاع چین نہیں ہمارے دفترنےدی تھی: ڈبلیو ایچ او

عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ ادارے کو یہ اطلاع چینی شہر ووہان میں سامنے آنے والے پہلے نمونیا کیسز کی تھی، تاہم ڈبلیو ایچ او نے یہ نہیں بتایا اسے اس بات کی اطلاع کیسے ملی تھی۔

چین کے شہر ووہان میں ایک ڈاکٹر کرونا وائرس کے ایک مریض کی خیریت دریافت کر رہی ہیں (فائل تصویر: اے ایف پی)

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے کرونا (کورونا) وائرس کے بحران کے ابتدائی مراحل کے حوالے سے اپنے بیان کو اپ ڈیٹ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس حوالے سے انہیں پہلی اطلاع چین کی جانب سے نہیں بلکہ چین میں موجود اپنے دفتر کی جانب سے دی گئی تھی۔ یہ اطلاع چینی شہر ووہان میں سامنے آنے والے پہلے نمونیا کیسز کی تھی۔

اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے ڈبلیو ایچ او پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے الزام عائد کیا جاتا رہا ہے کہ وہ کرونا کی وبا کے آغاز پر امریکہ کو بروقت آگاہ کرنے میں ناکام رہا ہے اور چین کی جانب اس کا رویہ بہت نرم ہے، تاہم ڈبلیو ایچ او ان الزامات کی تردید کرتا ہے۔

رواں سال نو اپریل کو ڈبلیو ایچ او کی جانب سے اس حوالے سے ہونے والی ابتدائی تفصیلات شائع کی گئیں، جن میں اس وبا کے آغاز پر ڈبلیو ایچ کے جزوی ردعمل پر تنقید کا جواب دیا گیا تھا۔ اس وقت تک دنیا میں کرونا کی وبا سے پانچ لاکھ 21 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

واقعات کی جاری کی جانے والی ترتیب کے مطابق ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ ووہان میونسپل ہیلتھ کمشن نے 31 دسمبر کو نمونیا کے کیسز رپورٹ کیے تھے، تاہم ڈبلیو ایچ او نے یہ نہیں بتایا اسے اس بات کی اطلاع کیسے ملی تھی۔

ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر ٹیڈروس ادھانوم گیبریسیس نے 20 اپریل کو ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ ابتدائی رپورٹ چین کی جانب سے ملی تھی لیکن انہوں نے اس بات کی وضاحت نہیں کی تھی کہ اس رپورٹ کا ذریعہ چینی حکام تھے یا کوئی اور ذرائع۔ نئی شائع کردہ ترتیب کے مطابق ان واقعات کی مزید تفصیل فراہم کی گئی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تفصیلات کے مطابق چین میں ڈبلیو ایچ او کے دفتر نے 31 دسمبر کو علاقے میں موجود اپنے دفتر کو ممکنہ 'وائرل نمونیا' کی اطلاع دی تھی۔ دفتر نے ایسا ووہان ہیلتھ کمشن کی ویب سائٹ پر اس حوالے سے میڈیا کے لیے جاری کردہ اعلان کے بعد کیا تھا۔

اسی روز ڈبلیو ایچ او کی انفارمیشن سروس کو امریکہ میں موجود وبائی امراض کی نگرانی کرنے والے ادارے کی ایک رپورٹ موصول ہوئی جس میں ووہان کے ان کیسز کی اطلاع دی گئی تھی۔

جس کے بعد ڈبلیو ایچ او نے چینی حکام کو یکم اور دو جنوری کو اس حوالے سے معلومات فراہم کرنے کا کہا، جو انہوں نے تین جنوری کو فراہم کر دی تھیں۔

ڈبلیو ایچ او کے ایمرجنسی ڈائریکٹر مائیکل ریان نے جمعے کو صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ رکن ممالک کے پاس 24 سے 48 گھنٹوں کا وقت ہوتا ہے جس میں وہ کسی بھی واقعے کے بارے میں ڈبلیو ایچ او کو ابتدائی یا اضافی معلومات کے ساتھ ان واقعات کی تصدیق کر سکتے ہیں۔

مائیکل ریان کا مزید کہنا تھا کہ چینی حکام نے ڈبلیو ایچ او کی جانب سے تصدیق کے لیے رابطہ کرنے کے فوری بعد ادارے سے رابطہ کیا تھا۔

واضح رہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا تھا کہ امریکہ جو کہ ڈبلیو ایچ او کو فنڈنگ فراہم کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے، اس ادارے کے ساتھ اپنے روابط ختم کر دے گا، جس کی وجہ ڈبلیو ایچ او کی چین سے قربت اور اس وبا سے نمٹنے میں ناکامی کو قرار دیا گیا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی صحت