کرونا وائرس نے کیا کچھ تبدیل کر ڈالا؟

یہ بات یقینی ہے کہ کرونا وائرس کے بعد کی زندگی وہ نہیں رہی گے جو اس وبا کے آنے سے پہلے تھی۔

سماجی دوری کا کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ اس وائرس کی وجہ سے لوگ ایک دوسرے سے دور تو کچھ برسوں بعد اپنوں سے اتنے عرصے جڑے رہے(اے ایف پی)

ایک طرف کرونا (کورونا) وائرس نے رہنے سہنے، اٹھنے بیٹھنے لوگوں سے ملنے کے سارے اطوار بدل ڈالے، تو دوسری طرف برسوں سے چلے آنے والے رواجوں کو بھی روند ڈالا ہے۔

سماجی دوری کا کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ اس وائرس کی وجہ سے لوگ ایک دوسرے سے دور تو کچھ برسوں بعد اپنوں سے اتنے عرصے جڑے رہے۔ جس کا انہوں نے سوچا بھی نہیں تھا۔ صرف اساتذہ کے علاوہ کوئی اتنی چھٹیوں کا خیال بھی نہیں لا سکتا۔

اتنی زیادہ چھٹیاں شاید پھر زندگی میں ملازمین کو ملے جتنی زیادہ کرونا کے باعث انہوں نے گھروں میں گزارے۔ غریبوں کے لیے حکومت کے ساتھ ساتھ لوگوں نے بھی بھر پور مدد کی اُن کو گھر کی دہلیز پر سامان فراہم کیا گیا۔ کچھ علاقوں میں غریبوں کے پاس اتنا راشن آیا کہ انہیں وہ بیچنا بھی پڑا، اور کچھ لوگ سفید پوشی کے بھرم میں بھوکے پیٹ سوتے رہے۔ جو کچھ تھا اُن سے ہاتھ دھوبیٹھے۔

اس کرونا نامی بلا نے حکومت سمیت عام آدمی کو سوچنے پر مجبور کیا تو مستقبل کے لیے انہیں بیدار بھی کیا کہ ہمیں ایسے حالات میں کس طرح منصوبہ بندی کرنی چاہیے۔ آن لائن تعلیمی نظام کا شروع کرنا ہو، گھر بیٹھ کر کس طرح دفاتر کے کام ایمرجنسی میں نمٹانے ہوں یہ سب اس لاک ڈاؤن کے دور میں ممکن ہو گیا۔

اگر کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ بہت سے کام جو آسان تھے مگر ہمیں مشکل لگ رہے تھے وہ کام ان دنوں میں ممکن ہو گئے۔ میرے ایک دوست کے مطابق جن لوگوں نے یہ قیمتی دن گنوائے ہیں انہوں نے بہت کچھ گنوادیا ہے کیونکہ ایسے قیمتی دن پھر زندگی میں شاید ہی آ سکیں۔

سائنس دانوں نے ایجادات کیں، لوگوں نے ورزش کو معمول بنا کر خود کو سلم کیا۔ بہت سے لوگوں نے فلمیں دیکھیں، تفاسیر پڑھی گئیں، نیٹ سرفنگ کی گئی، بچوں کو پڑھایا گیا۔ بہت سے دانشوروں نے ویب سائیٹس کے لیے لکھنا شروع کیا، سٹیزن جرنلزم کے لیے بھی یہ دور بہترین رہا۔

ہمارے بہت سے دوست بشمول میرے رات گئے تک سوشل میڈیا پیجز پر اپنے خیالات لوگوں تک پہنچاتے رہے۔ جن کو صرف لوگ لکھتے ہوئے یا پوسٹ کرتے ہوئے دیکھتے تھے انہیں لوگوں نے بولتے ہوئے بھی دیکھا۔

میڈیا کے لیے بھی یہ دور سنہرا ترین رہا کیونکہ ہر جگہ ایک ہی قسم کی نیوز تھیں۔ جو لوگ میڈیا اور سوشل میڈیا کو برا تصور کرتے تھے انہوں نے اسے اچھا پایا تو کچھ لوگ میڈیا سے کنارہ کش ہو گئے۔ اب برسوں تک یہی موضوع تحقیقی مقالوں میں استعمال ہو گا۔ وہ جس بھی ڈسپلن میں ہو۔ جس طرح دہشت گردی کے خلاف جنگ تھی اسی طرح اس کرونا وائرس کا نظام تعلیم، ادب، شاعری، روئیوں پر اثر دیکھا جائے گا۔ میڈیا میں بھی اس کے اثرات، اس کی کوریج جیسے موضوعات زیر بحث ہوں گے۔

کرونا وائرس نے رسم و رواج میں بھی تبدیلی کی۔ لوگوں نے شادیاں مختصر کیں۔ ہمارے ایک دوشت نے صرف ولیمے کا بجٹ دس لاکھ سے اوپر رکھا تھا۔ کرونا وائرس کے دنوں میں تاریخ مقرر تھی تو شادی ملتوی نہیں کی اور مختصر ترین شادی کی جس میں صرف خاندان کے لوگ ہی شریک ہوئے۔

اسی طرح ایک فوتگی پر جب خیرات کی باری آئی تو خاندان والوں نےگاوں کے تمام محلوں میں تمام گھروں میں چاول بانٹے کسی کو نہیں بلایا۔ چاول ضائع بھی نہیں ہوئے اور نہ کوئی ناراض ہوا۔ وہ چاول ایک بندے کی بجائے گھر کے بہت سے افراد نے کھائے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس کرونا وائرس نے لوگوں کو گھروں تک محدود رکھا اور بہت کم لوگ کسی کے گھر گئے بلکہ اب تو لوگوں نےایک دوسرے کے گھروں میں جانا کم کر دیا ہے، جس کی مثال عید کی دے سکتے ہیں۔

بازاروں یا دفاتر میں خالی چھینک اور کھانسنے والے کوعجیب نظر سے عرصہ دراز تک دیکھا جائے گا۔ کرونا وائرس کے بعد جو حالات ہوں گے وہ اس سے شاید بہت عجیب ہوں۔ لوگوں سے جب دوبارہ گھل ملا جائے گا تب معلوم ہو گا کہ اس بیماری نے لوگوں میں کیا تبدیلیاں رونما کی ہیں۔

ایک خیال کے مطابق بے روزگاری بڑھنے کے امکانات بہت زیادہ ہیں، کیونکہ اداروں نے کم وسائل اور کم ملازمین پر دفاتر کے کام نمٹائے۔ گھر میں لوگوں سے کام لیا، اور ہوسکتا ہے اب اداروں کے سربراہان سوچیں کہ کم ملازمین سے اگر کام ہو سکتا ہے تو اتنے زیادہ کلرک، جونئیر کلرک، آفس بوائے وغیرہ کے جھمیلوں کی کیا ضرورت ہے۔

اگر ایسا ہوا تو یہ غریب آدمی کے لیے یقیناً برا شگون ہو گا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ