کسی کو ہیجڑا کہہ دینا سب سے بڑی گالی کیوں ہے؟

وہ دن دور نہیں جب خواجہ سرا اپنی صلاحیتوں اور محنت کے بل بوتے پر سیاست سمیت ہر شعبے میں اپنا نام اور جگہ بنا لیں گے۔

اس سال کے شروع میں نایاب علی نے آئرلینڈ میں گالاز ایوارڈ جیتا تھا (نایاب کا ٹوئٹر اکاؤنٹ)

کل میری نظر سے ٹوئٹر پر مشہور گلوکار سلمان احمد کی پوسٹ گزری جس میں انہوں نے بلاول بھٹو زرداری کی ایڈٹ شدہ تصویر پوسٹ کی تھی جس میں بلاول بھٹو زردادری کو ایک خواجہ سرا عورت کی صورت میں دکھایا گیا ہے۔

اس پر سلمان احمد کو شدید تنقید کا سامنا ہے اور کئی لوگوں نے ان پر زور دیا ہے کہ وہ اپنی ٹویٹ واپس لے لیں۔ لیکن سلمان احمد ٹویٹ واپس لیں بھی تب بھی مسئلہ اپنی جگہ ہے۔ ایسا پہلی بار نہیں ہوا۔ ہمارے ہاں عام زندگی اور سیاست دونوں میں یہ ایک عام وطیرہ ہے کہ کسی مرد کی بے عزتی کرنی ہو تو ایسے ہیجڑا کہہ دیں اور اس طرح سے خوش ہو لیں کہ آپ نے اس کی بے عزتی کر دی۔ اور اس کام میں سب پیش پیش ہیں۔ کوئی ایک سیاسی جماعت یا کوئی ایک دو رہنما نہیں کہ آپ کہہ دیں کہ چلو کوئی بات نہیں بلکہ آئے روز اپ کو اس کی مثال نظر آئےگی۔

جیسے پچھلے دنوں عوامی نیشنل پارٹی کے ابھرتے ہوئے نوجوان سربراہ ایمل خٹک نے ایک پشتو ٹی وی چینل پر بیٹھ کر وفاقی وزیر مراد سعید کا اسی طرح نازیبا انداز میں مذاق اڑایا۔ یہی سیاست دان اور نامور لوگ پھر عام لوگوں سے مہذب رویوں کی امید کرتے ہیں۔ حالانکہ ان کی اس جاہلانہ سوچ کو دیکھ کر ان سے سیاست کے میدان میں کوئی امید لگانا حماقت ہو گی۔  

ان دو حالیہ واقعات اور ماضی میں ایسے بے شمار واقعات کی بنا پر میں سمجھتی ہوں کہ بحیثیت مجموعی ہم نے خواجہ سرا کو واقعی ایک گالی بنا دیا ہے۔ اس کا اندازہ اپ کو اور شدت سے تب ہونے لگتا ہے جب اپ اپنے اردگرد کچھ خواجہ سراؤں سے بات کرتے ہیں۔ ان کے حالات و واقعات سننے کے بعد آپ کو اپنے انسان ہونے پر شرم محسوس ہوتی ہے کیونکہ یہ حقیقت ہے کہ ہم نے ان کا جینا حرام کر رکھا ہے۔

 پچھلے دنوں ایک آن لائن گفتگو کی نشست میں مجھے دو خواجہ سرا خواتین نایاب علی اور ریم شریف سے ان کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر بات چیت کرنے کا موقع ملا۔

نایاب علی اور ریم شریف خواجہ سرا ہیں لیکن آج وہ دونوں نہ صرف خواجہ سراوں کے لیے بلکہ بہت سے مردوں اور عورتوں کے لیے رول ماڈل ہیں۔ نایاب علی کہتی ہیں کہ ’مجھے اپنے گھر والوں نے معاشرے میں بدنامی اور بے عزتی کے ڈر سے بچپن ہی سے بالکل رد کر کے گھر سے نکال دیا تھا۔ میرا کوئی نہیں تھا جو میرا ساتھ دیتا یا میرے احساسات سمجھتا۔‘

لیکن نایاب علی جب تھوڑا بہت سنبھل پائیں تو انہوں نے دوسرے خواجہ سراؤں کے حق کے لیے لڑنا شروع کیا۔ ایک دن ان پر صرف اس لیے تیزاب پھینکا گیا کہ وہ ایک ایسی خواجہ سرا کی مدد کرنے نکل پڑی تھیں جو لاوارث تھی اور ان کا ریپ کیا گیا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

نایاب ان کا سہارا بنیں لیکن اس کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑی۔ نایاب کہتی ہیں کہ ’جب مجھ پر تیزاب پھینکا گیا تو مہینوں میں درد سے بلک اٹھتی تھی، لیکن ایک دن بھی میرے دل میں یہ خیال نہیں آیا کہ میں اپنے مشن سے ہٹ جاؤں اور خواجہ سرا برادری کے حق لے لیے لڑنے سے دست بردار ہو جاؤں بلکہ میرا درد میری طاقت بنا۔‘

وہ دن ہے اور آج کا دن ہے، نایاب روز بروز ترقی کے زینے طے کر رہی ہیں۔ وہ کافی عرصے سے اسلام آباد کے ایک ادارے کی جانب سے وکلا اور ججوں کو صنفی برابری اور انسانی حقوق کی تربیت دینے کے فرائض سرانجام دے رہی ہیں اور کئی اداروں کی صنفی امور کی مشیر ہیں۔

پاکستان کی پہلی خاتون خواجہ سرا ہیں جنہیں اس سال ایک مشہور ایوارڈ ’دی گالاز‘ بھی ملا۔ نایاب نے عام انتخابات میں بھی حصہ لیا تھا اور یہ ثابت کر دکھایا ہے کہ اس ملک کے خواجہ سرا میں بھی سیاسی رہنما بننے کی پوری پوری صلاحیت ہے لہٰذا اس خام خیالی سے نکل آئیں کہ سیاست صرف مرد یا عورت کا کام ہے۔  

ریم شریف کی زندگی اور بقا کی جدوجہد بھی نایاب علی سے ملتی جلتی ہے۔ وہ پاکستان کی پہلی خواجہ سرا ہیں جو اس سال  پولیس میں 14 ویں سکیل میں بھرتی ہوئی ہیں۔ ریم شریف اور نایاب اتنی زنجیریں توڑنے میں کیسے کامیاب ہوئیں؟ اس کے جواب میں وہ دونوں کہتی ہیں کہ ہمارے پاس دو راستے تھے کہ یا تو گمنامی کی زندگی گزاریں، گالی بن کر جییں اور یا ایک بھر پور زندگی جینے کا حق حاصل کریں اور وہ بھی اپنے بل بوتے پر۔

دونوں کا مشن ہے کہ پاکستان میں خواجہ سرا کو وہ عزت اور مقام ملے جو ان کا حق ہے۔ بات صرف نایاب علی اور ریم شریف تک محدود نہیں بلکہ پاکستان میں بہت سارے شعبوں میں اب آپ کو خواجہ سرا بڑی کامیابی سے اپنی جگہ بناتے نظر آئیں گے۔ ریم شریف کو نایاب علی کی طرح اپنے گھر والوں نے رد تو نہیں کیا لیکن ان کے گھر والے کبھی اس کے احساسات کو نہیں سمجھ سکے۔

ریم شریف بہت پڑھی لکھی ہیں لیکن کالج میں ہراسانی کی وجہ سے نہ صرف ریم شریف نے کچھ عرصے کے لیے اپنی تعلیم چھوڑ دی تھی بلکہ وہ کہتی ہیں کہ ان کی دماغی صحت پر اتنا برا اثر ہوا تھا کہ وہ ایک سال تک مکمل بستر پر پڑی رہیں۔ اس دوران پتہ نہیں وہ کون سا لمحہ گزرا کہ ریم شریف کے اندر ایسی ہمت بھر آئی کہ وہ نہ صرف اٹھ کھڑی ہوئیں بلکہ آج پاکستان میں بہت سارے لوگوں کے لیے کامیابی کی ایک مثال بن کر ابھری ہیں۔ 

ریم شریف اور نایاب کی کہانی سن کر لگتا ہے وہ دن دور نہیں جب خواجہ سرا اپنی صلاحیتوں اور محنت کے بل بوتے پر سیاست سمیت ہر شعبے میں اپنا نام اور جگہ بنا لیں گے۔ لیکن ان کے لیے معاشرے کو اپنے اندر تبدیلیاں لانی ہوں گی۔ ہمیں خواجہ سرا کو انسان سمجھنا ہو گا۔ خواجہ سرا کو گالی بنانے والے کلچر کے خاتمے کے لیے سب سے پہلے اور سب سے اہم کردار ہمارے سیاست دانوں اور بڑی بڑی سلیبرٹیز کو ادا کرنا ہو گا۔ ان کو اپنے الفاظ پر غور کرنا ہو گا کیونکہ ایک طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کے لاکھوں فالورز ان کو اندھا دھند فالو کرتے ہیں اور پھر وہ بھی معاشرے میں یہی رویہ اختیار کرتے ہیں۔

ایسے میں آج کی نوجوان نسل سے ہم کیا گلہ کریں جو سوشل میڈیا پر گالم گلوچ کرتی نظر آتی ہے۔ سیاست اور نظریے کی بنیاد پر اختلاف ضرور کریں لیکن تمیز اور اخلاق کے دائرے کے اندر اندر رہ کر۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ