کیا پی سی بی کا نیا ضابطہ اخلاق مصباح الحق پر بھی لاگو ہوگا؟

مصباح الحق دوہری تنخواہ کے ساتھ ساتھ پی ایس ایل فرنچائز اسلام آباد یونائیٹڈ کے بھی کرتا دھرتا ہیں۔ وہ کرکٹ میں تو آل راؤنڈر نہ بن سکے مگر ریٹائر ہوکر بورڈ کے آل راؤنڈر بن گئے ہیں اور ہر اہم جگہ پر خود کو دیکھنا چاہتے ہیں۔

پاکستان کرکٹ ٹیم کے موجودہ کوچ اور چیف سیلیکٹر مصباح الحق (فائل تصویر: اے ایف پی)

پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) ان دنوں اپنی اصلاح اور کانٹ چھانٹ میں مصروف ہے۔ کوئی دن نہیں گزرتا جب بورڈ پرانی روایتوں کو نئے چاندی کے ورق میں لپیٹ کر پیش کردیتا ہے لیکن کیا کیجیے کہ دیکھنے والے بھی قیامت کی نگاہیں رکھتے ہیں اور  تبدیلی کے نام پر وہی پرانی چیزیں دیکھ کر سوا نیزے پر آجاتے ہیں۔

ڈیپارٹمنٹل کرکٹ کا تیا پانچہ کرنے کے بعد اب بورڈ کے اعلیٰ ترین صلاحیتوں کے حامل امپورٹڈ دماغوں نے اپنے ملازمین کے لیے ضابطہ اخلاق طے کیے ہیں اور ان میں ایک حلف نامہ تقسیم کیا گیا ہے جس میں ملازمین سے بہت سارے سوالات کیے گئے ہیں اور انہیں حلفیہ جوابات دینے ہیں۔

اس حلف نامے میں ملازمین سے تمام سوالات کا مرکزی نقطہ بورڈ کی ملازمت کے ساتھ کسی اور ادارے یا فرنچائز سے وابستگی معلوم کرنا ہے۔

 27 صفحات پر مشتمل سوالنامے میں یہ پوچھا گیا ہے کیا وہ کسی اور ایسے ادارے سے منسلک ہیں جو کرکٹ سے متعلق کوئی مارکیٹنگ کرتا ہے اور کیا انہیں اس کے علاوہ کسی اور ذریعے سے کوئی مالی فوائد ملتے ہیں۔

ظاہر ہے یہ سوالات اعلیٰ ترین حیثیت میں موجود افراد سے ہی کیے جاسکتے ہیں جنہیں بیک وقت کئی جگہوں سے فوائد حاصل ہو رہے ہیں، لیکن ان میں وہ بھی شامل ہیں جو جز وقتی یا اعزازی مشاہرے پر بورڈ کے ملازم ہیں ۔

اگر ان سوالات کو دیکھا جائے تو سب سے زیادہ فوائد اور کئی اداروں سے مالی مفادات حاصل کرنے میں موجودہ کوچ اور چیف سیلیکٹر مصباح الحق، کرکٹ کمیٹی کے رکن وسیم اکرم اور شعبہ خواتین کی سربراہ عروج ممتاز سب سے آگے نظر آتے ہیں۔

مصباح الحق دوہری تنخواہ کے ساتھ ساتھ پی ایس ایل فرنچائز اسلام آباد یونائیٹڈ کے بھی کرتا دھرتا ہیں۔ وہ کرکٹ میں تو آل راؤنڈر نہ بن سکے مگر ریٹائر ہوکر بورڈ کے آل راؤنڈر بن گئے ہیں اور ہر اہم جگہ پر خود کو دیکھنا چاہتے ہیں۔

دوہرے فائدے اٹھانے میں  وسیم اکرم بھی پیچھے نہیں ہیں، جو کرکٹ کمیٹی کے بنیادی رکن ہونے کے ساتھ کمنٹری تو کرتے ہی ہیں لیکن کراچی کنگز کے صدر بھی ہیں اور ایک ڈیجیٹل نشریاتی ادارے کرک انگف کے شریک چیئرمین بھی۔ یہ وہی ادارہ ہے جس کے پاس گذشتہ پی ایس ایل ایڈیشن کے انٹرنیٹ حقوق تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہ سب کچھ کرتے ہوئے وہ شوبزنس بھی چلا رہے ہیں  اور پاکستان کرکٹ بورڈ میں وہ اس وقت تک ویٹو پاور ہیں جب تک عمران خان وزیراعظم ہیں۔

یاد رہے کہ ماضی میں رمیز راجہ پی سی بی کے سی ای او تھے، لیکن جب ان کی کمنٹری کے باعث مفادات کا تنازع اٹھا تو وہ کمنٹری نہ چھوڑنے کے باعث بورڈ چھوڑ گئے تھے۔ اسی طرح عامر سہیل جو سابقہ دور میں چیف  سیلیکٹر تھے، کمنٹری کرنے کے وجہ سے بورڈ سے الگ ہوگئے تھے۔

مفادات کے تصادم میں سابق خاتون کرکٹر عروج ممتاز بھی شامل ہیں جو مصباح الحق کے نقش قدم پر چلتے ہوئے کئی پوزیشنوں پر قبضہ کیے ہوئے ہیں۔ وہ شعبہ خواتین کی سربراہ ہیں اور چیف سیلکٹر بھی۔ اس کے ساتھ ساتھ کرکٹ کمیٹی کی بنیادی رکن اور  پی ایس ایل کی کمنٹیٹر بھی ہیں۔ اب یہ کوئی ان سے پوچھے کہ وہ اپنے ڈینٹل کلینک کے ساتھ ان چاروں پوزیشنوں سے کس طرح انصاف کرسکتی ہیں لیکن تحریک انصاف کی حکومت میں ہر انصاف ممکن ہوجاتا ہے۔

کئی اور سابق کرکٹرز بھی ہیں جو بورڈ کے ساتھ فرنچائز کے مزے بھی لوٹ رہے ہیں، جن میں مشتاق احمد، وقار یونس اور یونس خان شامل ہیں۔

کیا پاکستان کرکٹ میں صرف یہ چند ہی لوگ ہیں جو بورڈ کو نظر آتے ہیں؟

سینکڑوں ایسے سابق کرکٹرز ہیں جنہوں نے پاکستان کرکٹ کی بہت خدمت کی ہے لیکن بورڈ ان سے فائدہ اٹھانے کے لیے تیار نہیں ۔

پی سی بی کے نئے ضابطہ اخلاق سے کیا بورڈ میں کسی قسم کی بہتری آئے گی؟ فی الحال تو ایسا نظر نہیں آتا لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس نئے ضابطے کا اطلاق  مصباح الحق اور وسیم اکرم پر بھی ہوگا یا پھر ایسے ضوابط محض کاغذی خانہ پری کی خاطر ہیں اور بااثر افراد ہمیشہ کی طرح دوہرے فوائد حاصل کرتے رہیں گے۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کرکٹ