ارے بھائی کتنی ٹپ چاہیے؟

ابن انشا جب چین گئے تھے تب ٹپ لینے کا رواج نہیں تھا۔ آج بھی نہیں ہے، مگر کاش چینیوں کو تو ہم دھڑا دھڑ امپورٹ کر ہی رہے ہیں، ان کا یہ ٹِپ نہ مانگنے کا رواج بھی امپورٹ کر لیں تو کیا ہی اچھا ہو۔

ابنِ انشا کو چین میں ڈھونڈنے سے بھی کوئی ایسا چینی نہیں ملا جس کی توند نکلی ہو۔ یہاں ہم نظر اٹھائیں تو چینیوں کی توند نظر آ جاتی ہے(تصویر: بشکریہ  فیئر یوز)

ابنِ انشا کو تو آپ نے پڑھا ہی ہو گا۔ کمال کے مصنف اور شاعر تھے۔ کچھ دن پہلے ان کی کتاب ’چلتے ہو تو چین کو چلیے‘ ہاتھ لگی، دو دن میں ختم کر دی۔ کچھ مضامین تو پہلے بھی پڑھ رکھے تھے، باقی اب پڑھے، افسوس بھی ہوا کہ کس قدر کم علمی میں زندگی گزار دی، خیر اللہ جب توفیق دے۔

ابنِ انشا ساٹھ کی دہائی میں چین گئے تھے۔ اُس چین میں نہ پیپسی تھی اور نہ ہی کوکا کولا۔ اس وقت چین میں صرف گرم پانی ملتا تھا۔ چینی تب بھی کھانے سے پہلے، کھانے کے دوران اور کھانے کے بعد گرم پانی پیتے تھے اور آج بھی بس یہی پیتے ہیں۔ ہاسٹل والوں نے کمرے میں گرم پانی کی ایک نہیں دو بوتلیں رکھ چھوڑی ہیں لیکن ہم بھی اپنے نام کے ایک ہیں۔ پہلے دن ہی دونوں بوتلیں اٹھا کر الماری میں رکھ دیں۔ اگلے روز بازار سے ایک فریج اور درجن بھر بوتلیں خرید لائے۔ خدا کی قسم ٹھنڈا پانی پینے کا جو مزہ چین میں ہے، زمین کے کسی کونے میں نہیں۔

ہاسٹل والوں نے بھی استقبالیے کے قریب ایک وینڈنگ مشین رکھی ہوئی ہے۔ اس مشین میں دو تین کمپنیوں کے منرل واٹر کے علاوہ پیپسی، کوکا کولا، سیون اپ اور آئس ٹی بھی رکھی ہوئی ہے، یعنی چین میں ایک وقت وہ تھا جب پیپسی کی تصویر بھی دیکھنے کو نہیں ملتی تھی اور ایک وقت یہ ہے کہ جہاں بیٹھے ہیں، وہیں پیپسی موجود ہے۔

ابنِ انشا کو چین میں ڈھونڈنے سے بھی کوئی ایسا چینی نہیں ملا جس کی توند نکلی ہو۔ یہاں ہم نظر اٹھائیں تو چینیوں کی توند نظر آ جاتی ہے، نظر جھکائیں تو اپنی توند نظر آ جاتی ہے۔ بہر حال یہ تو آنے جانے والی چیز ہے۔ آج ہے، کل نہیں ہو گی۔ ہم نے دو چار نسخے نوٹ کر رکھے ہیں، بس اللہ ہمت دے تو انہیں آزما کر بھی دیکھ لیں گے۔ تب تک آپ کو کوئی نسخہ پتہ ہو تو نوٹ کروا دیں، ہم وہ نسخہ خود بھی آزمائیں گے اور اپنے قریبی چینی بہن بھائیوں کو بھی بتائیں گے۔ چینی ہمیں سوئی سے لے کے جہاز تک دیتے ہیں، ہم کم از کم انہیں توند کم کرنے کا نسخہ ہی دے دیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بہت سی چیزیں ابنِ انشا اور ہمارے چین میں مشترک بھی ہیں۔ مثلاً ابنِ انشا کے چین میں چوری نہیں ہوتی تھی، الحمداللہ ہمارے چین میں بھی نہیں ہوتی۔ کم از کم ہماری کوئی چیز اب تک چوری نہیں ہوئی، کم بخت دل تک اپنی جگہ پر ہے، چینی وہ تک نہیں چراتے۔

ابنِ انشا کے چین میں چینی ٹِپ لینا اپنی توہین سمجھتے تھے، ہمارے چین میں بھی ٹِپ لینے کا کوئی رواج نہیں ہے۔ کسی ریستوران میں چلے جاؤ، بیرا ٹِپ کے چکر میں آس پاس نہیں منڈلائے گا۔ اپنا کام کرے گا اور واپس اپنی کرسی پر جا کر بیٹھ جائے گا۔ آپ آرام سے اپنا کھانا کھائیں، بِل ادا کریں اور نکل جائیں۔

یہی حال ہاسٹل میں کام کرنے والی آئیوں (آنٹیوں) کا ہے۔ یہ آئیاں دو شفٹوں میں صبح سات سے رات 11 بجے تک ہاسٹل میں کام کرتی ہیں، مجال ہے کبھی کسی سے ایک یوآن بھی مانگا ہو یا کسی کی چیز کی طرف للچا کر دیکھا ہو۔ ہمیں ان کی یہ عادت بہت بھلی لگتی ہے۔

ہمارے ہاں الٹا حساب ہے۔ خریداری کرو نہ کرو، دروازے پر موجود دربان کو سو، ڈیڑھ سو دینا ہی پڑتا ہے۔ بڑے ریستوران میں تو بِل کے اندر ہی سروس چارجز موجود ہوتے ہیں، اس کے باوجود بیرا بِل کے بقایا جات میز پر رکھتے ہوئے ایسے دیکھتا ہے کہ انسان شرمندہ سا ہو کر رہ جاتا ہے۔

ریستوران کا تو چلو کسی نہ کسی طرح معاملہ حل ہو ہی جاتا ہے، انسان کبھی کبھار باہر جاتا ہے، جہاں ہزاروں خرچ کیا ہے، وہاں سینکڑوں کی کیا اوقات۔ مگر یہ ایئرپورٹ کا کیا سین ہے؟ انسان گھر سے جتنی مرضی تیاری کر کے نکلے، فلائٹ سے پہلے اسے بیت الخلا جانا پڑ ہی جاتا ہے۔ اب اندر کارروائی ڈلے، نہ ڈلے، جیب پر تو ڈل ہی جاتی ہے۔ اور کہیں ایئرلائن کے خرچے پر قیام کرنا پڑ جائے تو بس سمجھیں آپ کا بٹوہ بھی گیا۔ اس بار پی آئی اے والے جانے کس موڈ میں تھے، ہمیں پہلے لاہور سے کراچی لے گئے، وہاں سے اسلام آباد اور پھر وہاں سے بیجنگ۔ ہم تو تیار بیٹھے تھے کہ اب شاید سکردو لے جائیں گے پر شاید پیسے پورے ہو گئے تھے، بیجنگ پہنچ کر جہاز سے اترنا پڑا۔

خیر تو کراچی میں ایک ہوٹل بھی دیا گیا۔ وہاں تو ہر آدھے گھنٹے بعد دروازے پر کوئی ٹِپ لینے موجود ہوتا تھا یعنی روم سروس کی سہولت موجود تھی۔ ٹھیک ہے ہم ملک سے باہر جا رہے ہیں پر یہ کس نے کہہ دیا کہ قارون کا خزانہ ہمارے ہی گھر چھپایا گیا تھا؟ جتنے پیسے تھے ان سے خریداری کر لی کہ باہر کے ملکوں میں مہنگی چیزیں ملتی ہیں، جو پیسے بچے تھے ان سے وہاں کی کرنسی خرید لی، اپنے جو اکا دکا نوٹ باقی تھے وہ اس مقصد کو رکھ چھوڑے ہیں کہ کبھی گھر والوں کو سرپرائز دینے کا ارادہ بن گیا تو ایئرپورٹ سے نکل کر ٹیکسی تو لے سکیں۔ اب یہ پیسے بھی ٹِپ میں دے دیں تو ہمارے پلے کیا باقی رہ جائے گا؟

خدارا تھوڑا رحم کرو اور ہمارے بٹوے کو بخش دو۔ اب اس میں کُل 325 روپے پڑے ہیں۔ صبح شام انہیں دیکھتے ہیں اور آہیں بھرتے ہیں۔ گھر سے دو ہزار لے کر نکلے تھے، جہاز میں سوار ہونے تک ان میں سے 1676 روپے ہوا ہو گئے۔ کچھ لاہور ایئرپورٹ پر ٹھگ لیے گئے تو کچھ کراچی میں لے لیے گئے۔ آخر میں ہمیں شرمندہ شرمندہ سی معذرت ہی کرنی پڑی کہ دیکھیں، آپ کا حال ہم جانتے ہیں، آپ ہمارا نہ ہی جانیں تو بہتر ہیں۔

چینیوں کو تو ہم دھڑا دھڑ امپورٹ کر ہی رہے ہیں، ان کا یہ ٹِپ نہ مانگنے کا رواج بھی امپورٹ کر لیں تو کیا ہی اچھا ہو۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ