خبردار! واٹس ایپ بھی ہیک ہو سکتا ہے

ایک پاکستانی سرکاری ملازم کے ساتھ حال ہی میں کچھ ایسا ہوا جس کے بعد ایسا لگتا ہے کہ واٹس ایپ بھی محفوظ نہیں رہا۔

واٹس ایپ کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ ایک محفوظ ایپ ہے (اے ایف پی)

جیسے جیسے ٹیکنالوجی کی دنیا ترقی کرتی جا رہی ہے، نئے نئے موبائل فونز، کمپیوٹرز اور مختلف ایپس سامنے آ رہے ہیں۔ ان میں کچھ ایپس یا ٹیکنالوجی تو ایسی ہوتی ہے کہ دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ کیا ایسا بھی ممکن ہے۔

مگر دوسری جانب اسی ٹیکنالوجی کا ممکنہ طور پر غلط استمعال کرنے والے، یعنی ہیکرز، بھی سب کچھ اپنے قابو میں کرنے کے نئے نئے طریقے آزما رہے ہیں۔

بعض اوقات تو ایسا لگتا ہے کہ کچھ بھی ان ہیکرز کی پہنچ سے دور نہیں۔

اب پیغامات بھیجنے والی موبائل ایپ واٹس ایپ کو ہی دیکھ لیں۔ اس ایپ کے بارے میں کہا جاتا رہا ہے کہ یہ محفوظ ہے اور اسے ہیک نہیں کیا جا سکتا۔

لیکن ایک پاکستانی سرکاری ملازم کے ساتھ حال ہی میں کچھ ایسا ہوا جس کے بعد ایسا لگتا ہے کہ واٹس ایپ بھی محفوظ نہیں رہا۔

حسن (فرضی نام) ایک سرکاری افسر ہیں جنہوں نے اپنا اور اپنے ادارے کا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انڈپینڈینٹ اردو کو بتایا کہ گذشتہ دنوں انہیں ایک فون کال موصول ہوئی جس کے بعد وہ اپنا موبائل استعمال نہیں کر پا رہے تھے۔

ان کا کہنا تھا: ’کووڈ 19 کی وجہ سے ہم زیادہ تر اپنے دفتری کام واٹس ایپ پر کرتے ہیں، خاص طور پر جب ہمیں ای میل کی سہولت میسر نہیں ہوتی تو ہم بہت سے دستاویزات اور دفتری معاملات واٹس ایپ پر ہی شئیر کر رہے تھے اور واٹس ایپ ہمارے لیے کافی فائدہ مند ثابت ہو رہا تھا۔‘

انہوں نے بتایا: ’دو تین روز قبل میرے ساتھ ایک واقعہ پیش آیا۔ میں نے اپنے فون پر ایک فائل ڈاؤن لوڈ کرنے کی کوشش کی مگر مجھے لگا کہ میں اسے ڈاؤن لوڈ نہیں کر پا رہا ہوں۔‘

’اس سے پہلے مجھے ایک نامعلوم نمبر سے کال آئی وہ میں نے سنی جس کے بعد مجھے لگا کہ جیسے میرے فون کا کنٹرول میرے ہاتھ سے نکل گیا ہو، نہ میں کوئی نمبر ڈھونڈ پا رہا تھا نہ کوئی ایپ کھول سکتا تھا۔‘

حسن بتاتے ہیں: ’اس کے بعد مجھ سے کچھ دوستوں نے رابطہ کیا کہ انہیں میرے واٹس ایپ سے دھمکی آمیز یا نازیبا پیغامات موصول ہو رہے ہیں۔‘

’میرے ایک دوست کو میرے نمبر سے ایک پیغام بھیجا گیا اور میری طرف سے 30 ہزار روپے کا مطالبہ کیا گیا۔ میں سمجھ گیا کہ میرا واٹس ایپ اب کوئی اور استعمال کر رہا ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا: ’میں نے فوراً اپنے دوستوں اور گھر والوں کو بتایا کہ اگر انہیں میرے واٹس ایپ سے کوئی پیغام موصول ہو تو وہ اسے نظر انداز کر دیں۔‘

اس کے بعد حسن نے اپنے دفتر والوں کو فوری اطلاع دی جس کے بعد انہوں نے اس سارے واقعے کے خلاف کارروائی کی اور کچھ دیر بعد انہیں دفتر کی جانب سے واٹس ایپ کو ہٹا کر دوبارہ سے انسٹال کرنے کا کہا گیا۔

’اس واقعے کا نقصان یہ ہوا کہ میرے واٹس ایپ میں جو کچھ بھی اہم دستاویزات، دفتری بات چیت کے وائس میسیجز، تصاویر سب کچھ ڈلیٹ ہو گیا میرے پاس بیک اپ بھی نہیں تھا اس لیے میرے لیے یہ سب بے حد تکلیف دہ اور ذہنی دباؤ کا سبب بنا۔‘

حسن کا واٹس ایپ ہیک ہوا یا موبائل فون؟

حسن کی اس ساری گفتگو سے سوال یہ پیدا ہوا کہ کیا واقعی میں واٹس ایپ ہیک ہو سکتا ہے جبکہ اس ایپ کو سب سے محفوظ ایپ کہا جاتا ہے۔

یہی حقیقت جاننے کے لیے ہم نے ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کے سائبر سکیورٹی ایکسپرٹ ارسالان اطہر سے بات کی۔

ارسلان نے انڈپینڈینٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ واٹس ایپ بالکل ہیک ہو سکتا ہے مگر اس کے ہیک ہونے میں سراسر صارف کی اپنی غلطی ہوتی ہے جبکہ کچھ کیسسز میں پورا فون بھی ہیک ہو جاتا ہے اور آپ کی ساری معلومات ہیکر کے پاس چلی جاتی ہیں۔

ارسلان اطہر نے انکشاف کیا: ’کرونا کے دنوں میں واٹس ایپ ہیکنگ کی شکایات میں نمایاں اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ جبکہ ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کو جون میں ہیکنگ کی 50 شکایات موصول ہوئیں۔

’مارچ اور اپریل میں ڈی آر ایف کو موصول ہونے والی تمام شکایات میں سے سات فیصد شکایات فشنگ کی تھیں جن میں فون پر غلط بیانی کر کے صارف کی ذاتی معلومات حاصل کی جاتیں ہیں اور ان کا غلط استعمال کیا جاتا ہے۔‘

آخر یہ ہیکنگ ہوتی کیسے ہے؟

ارسلان بتاتے ہیں کہ اگر تو آپ ٹیکنالوجی کو اچھے طریقے سے سمجھتے ہیں تو آپ کے لیے واٹس ایپ کو ہیک کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہوگا۔

’واٹس ایپ ہیکرز کا طریقہ واردات یہ ہوتا ہے کہ وہ آپ کو کوئی ویب لنک بھیجیں گے، جسے ہم میں سے بیشتر لوگ بغیر دیکھے بھالے کلک کر دیتے ہیں۔ اس بھیجے گئے لنک کے بارے میں ہم نہیں جانتے کہ اس میں کیا سافٹ وئیر چل رہا ہے؟‘

ان کے مطابق: ’جیسے ہی آپ اس لنک پر کلک کرتے ہیں واٹس ایپ سمیت آپ کے فون کا تمام کنٹرول آپ کے ہاتھ سے نکل جاتا ہے۔‘

’ہیکرز خاص طور پر واٹس ایپ کو ہی ٹارگٹ کرتے ہیں کیونکہ ہم نے ایک کیس میں یہ دیکھا کہ جب کسی کا واٹس ایپ ہیک ہوا تو ہیکر نے ان کا واٹس ایپ دوسرے لوگوں کا واٹس ایپ ہیک کرنے کے لیے استعمال کیا، یہ ایک طرح کی چین بنتی جاتی ہے اور لوگ اس جال میں پھنستے چلے جاتے ہیں۔‘

عموماً ایک صارف کا واٹس ایپ ہیک ہوتا ہے تو ان کے کانٹیکٹس میں سے بہت سے لوگوں کو ان کی طرف سے ایک میسج چلا جاتا ہے جو خطرناک ہوتا ہے۔

اب وہ یہ توقع نہیں کر رہے ہوتے کہ آپ انہیں کوئی خطرناک لنک بھیج سکتے ہیں۔ وہ بغیر سوچے سمجھے اس لنک کو کلک کر دیں گے اس میں ایک میسیج ہوگا کہ جیسے یہ بریکنگ سٹوری ہے اسے دیکھیں یا مجھے پیسوں کی ضرورت ہے یا پھر عید مبارک یا نئے سال کی مبارکباد کے کارڈز کے ساتھ ایک ویب لنک ہوگا۔

یہ لنک کہاں سے آتے ہیں؟

ارسلان کہتے ہیں کہ ہیکرز کے پاس ملیشیس سافٹ وئیر موجود ہوتے ہیں ان  سافٹ وئیرز کو اس طرح ڈیزائن کیا گیا ہے کہ ان کے لنک پر جیسے ہی کوئی کلک کرے گا یہ سافٹ وئیر ان کی ساری معلومات پکڑ لیتا ہے۔

’یہ آپ کے پاس ورڈز، واٹس ایپ اور دیگر معلومات وغیرہ یا یوں کہیے کہ یہ لنک آپ کے فون کا کنٹرول ہیکر کے ہاتھ میں دے دیتا ہے۔‘

واٹس ایپ ہیکنگ کا دوسرا طریقہ

ارسلان اطہر نے بتایا کہ ایسے کیسسز بھی ہیں جن میں صرف واٹس ایپ ہیک کا شکار وہ لوگ ہو رہے ہیں جو بہت سادہ ہیں یا ٹیکنلوجی کو بہت زیادہ نہیں جانتے۔

’اس طریقہ واردات میں صارف کو ہیکر کی طرف سے ایک کال آتی ہے جس میں وہ کسی ریاستی ادارے یا بینک کا اہلکار بن کر آپ کو فون کرتے ہیں۔     

اس کی مثال یوں ہے کہ آپ نے نیا فون لیا اس پر واٹس ایپ انسٹال کیا آپ کو چھ نمبر کا ایک پن کوڈ موصول ہوگا جسے اینٹر کرنے پر آپ کا واٹس ایپ چل پڑے گا۔ ایسے میں آُپ کو ایک کال آتی ہے کہ جی میں پی ٹی اے سے بات کر رہا ہوں آپ کا واٹس ایپ رجسٹر کرنے کے لیے اپنا چھ ہندسوں والا پن بتائیں۔

’جیسے ہی آپ اپنا پن بتاتے ہیں آپ کا واٹس ایپ ہیکر کے ہاتھ میں چلا جاتا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ کچھ لوگ یہ نہیں جانتے کہ کوئی بھی حکومتی ادارہ آپ سے فون پر آپ کی کسی بھی قسم کی  تفصیلات لینے کا مجاذ نہیں ہے۔‘

ہیکنگ سے بچیں کیسے؟

ارسلان اطہر  کہتے ہیں کہ ایسی صورت حال میں سب سے پہلے اپنے ای میل سمیت تمام دیگر اکاؤنٹس سے لاگ آؤٹ کریں اور ان کا پاس ورڈ تبدیل کر دیں۔

’اس سے ہیکر کے پاس آپ کے فون کے اندر موجود ایپس تک جو رسائی ہے وہ ختم ہو جائے گی لیکن اگر آپ کے پاس بیک اپ نہیں ہے تو جو معلومات ہیکنگ کے دوران چلی گئیں وہ واپس نہیں آسکتیں۔‘

کسی کو بھی اپنا واٹس ایپ پن نہ بتائیں۔ آپ کو جو ویب لنکس پیغامات میں موصول ہو رہے ہیں وہ چاہے آپ کے قریبی دوست نے ہی بھیجیں ہوں ایک بار ان سے فون کر کے پوچھ لیں کے انہوں نے آپ کو لنک میں کیا بھیجا ہے، یہ ممکن ہے کہ ان کا اکاؤنٹ بھی ہیک ہوا ہو اور وہ لنک انہوں نے آپ کو بھیجا ہی نہ ہو۔

کیا ہیکنگ میں  بیک اپ ڈیٹا محفوظ ہے؟

ارسلان کہتے ہیں کہ اگر آپ بیک اپ کے لیے گوگل استعمال کر رہے ہیں اور آپ فوری اس کا پاس ورڈ تبدیل کر لیتے ہیں تو پھر تو اس ڈاٹا کو بچایا جاسکتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’آپ کسی ڈیوائس پر اپنا بیک اپ لیں جیسے لیپ ٹاپ یا کسی ایکسٹرنل ہارڈ ڈرائیو پر ورنہ چانسز ہیں کہ ہیکر آپ کے بیک اپ ڈاٹا تک بھی پہنچ جائے گا۔‘

ایف آئی اے کا سائبر کرائم ونگ ہیکنگ کو کیسے روکتا ہے؟

وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کے سائبر کرائم ونگ کے ڈائریکٹر عبدالرب نے انڈپینڈینٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا: ’ہمارے پاس واٹس ایپ ہیکنگ کی شکایات آتی ہیں مگر زیادہ تر لوگوں کو اتنی آگاہی نہیں ہوتی کہ وہ  اپنے واٹس ایپ اکائونٹ کو کس طرح محفوظ بنائیں یا شکایت کہاں کریں۔‘

عبدالرب کہتے ہیں کہ اس طرح کی سرگرمی انٹرنیٹ بیسڈ سرگرمی ہوتی ہے ہیکر مختلف آئی پی ایڈریسسز استعمال کرتے ہیں جو دوسرے ممالک کے ہوتے ہیں۔

’وہاں کے ادارے ہمارے ساتھ بروقت تعاون نہیں کرتے کیونکہ ہمارے جیسے ادارے ان کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتے۔ کبھی کسی کیس میں معلومات حاصل ہو بھی جائیں تو ہمارے ہاں قوانین اتنے کمزور ہیں کہ سائبر کرائم کے مجرم کو تھوڑا سا جرمانہ ہوگا یا زیادہ سے زیادہ تین سال قید کی سزا۔‘

انہوں نے کہا: ’ہمارے خیال میں پرہیز علاج سے بہتر ہے اسی لیے ہم کوشش کر رہے ہیں کہ فون سمز کے سسٹم کو مزید محفوظ بنایا جائے اور اسی لیے ہم نے اڑھائی لاکھ ایسی فرینچائزز کے خلاف آپریشن کیے جو چھوٹے چھوٹے علاقوں میں کھلی ہیں اور وہاں سمیں ریوڑیوں کی طرح بکتی ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ٹیکنالوجی