کیا پاکستان اور بنگلہ دیش بھارت کی وجہ سے قریب آ رہے ہیں؟

وزیر اعظم عمران خان نے اپنی بنگلہ دیشی ہم منصب حسینہ واجد سے ٹیلی فون پر بات کی ہے۔ یہ اسلام آباد کی ڈھاکہ سے بہتر تعلقات کی دوسری حالیہ کوشش ہے لیکن پاکستان یہ کوششیں کیوں کر رہا ہے اور اس میں چین کا کیا کردار ہے؟

وزیر اعظم عمران خان نے شیخ حسینہ واجد کو پاکستان کے دورے کی دعوت دی ہے

پاکستان کے  وزیر اعظم عمران خان نے  بدھ کو اپنی بنگلہ دیشی ہم منصب شیخ حسینہ واجد سے ٹیلی فونک گفتگو میں پاکستان کی جانب سے قریبی اور برادرانہ تعلقات استوار کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔

دونوں رہنماؤں نے کرونا(کورونا) وائرس کی وبا پر قابو پانے سے متعلق اقدامات پر بھی گفتگو کی جبکہ وزیر اعظم عمران خان نے بنگلہ دیش میں سیلابوں سے ہونے والے نقصانات پر افسوس کا اظہار کیا۔

 انہوں نے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی کا ذکربھی کیا اور شیخ حسینہ واجد کو پاکستان کے دورے کی دعوت دی۔

بنگلہ دیش سے بہتر تعلقات کی طرف اسلام آباد کی حال ہی میں ہونے والی یہ دوسری کوشش تھی۔ سیاسی اور سفارتی ماہرین گذشتہ سال نومبر میں ڈھاکہ میں پاکستانی ہائی کمشنر کی20 ماہ سے خالی اسامی پُر کیے جانے کو پاکستان کی جانب سے بہتر تعلقات کی طرف پہلی کوشش قرار دیتے ہیں۔

ڈھاکہ میں پاکستان کے نئے ہائی کمشنر عمران احمد صدیقی نے اس سال فروری میں اپنے فرائض سنبھالے اور ماہ رواں کے پہلے ہفتے میں بنگلہ دیشی وزیر خارجہ اے کے عبدالمومن سے ملاقات کی۔

تعیناتی کے فوراًبعد عمران صدیقی نے ڈھاکہ میں عرب نیوز کو ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ اسلام آباد بنگلہ دیش کے ساتھ عوامی سطح پر رابطے ( یعنیٰ پیپل ٹو پیپل کانٹکٹس) بڑھانا چاہتا ہے تاکہ دونوں ملکوں کے درمیان تجارت، کاروبار، تعلیم، ثقافت اور کھیل کے شعبوں میں دو طرفہ تعلقات کو فروغ حاصل ہو۔

بین الاقوامی امور پر گہری نظر رکھنے والے پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما  اورسینیٹر مشاہد حسین سید کا کہنا تھا کہ انہیں یہ سن کر تھوڑی سی حیرت ہوئی تھی کہ عمران صدیقی بنگلہ دیشی وزیر خارجہ سے ملے ہیں، تاہم اب ملاقات کا مقصد واضح ہو گیا ہے۔

انہوں نے اسلام آباد کی ڈھاکہ سے تعلقات کے احیا کی کوششوں کو بہتر حکمت عملی اور وقت کی ضرورت قرار دیا۔ 

اسلام آباد میں ترجمان دفتر خارجہ عائشہ فاروقی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پاکستان ہمیشہ سے بنگلہ دیش کے ساتھ اچھے روابط کا خواہاں رہا ہے اور برادرانہ اور مضبوط تعلقات کی یہ خواہش اب بھی موجود ہے۔

بنگلہ دیش کا جواب

پاکستان کی دوستانہ تعلقات کی کوششوں کا بنگلہ دیش کی جانب سے کیا جواب آ سکتا ہے ،اس بارے میں  ماہرین مختلف آرا رکھتے ہیں۔

سابق پاکستانی سفیر اور سیکریٹری خارجہ ریاض حسین کھوکھر کا خیال ہے کہ ابھی اس سوال کا جواب نہیں دیا جا سکتا۔'ہمیں اس سلسلے میں انتظار کرنا ہو گا اور دیکھنا ہو گا کہ ڈھاکہ سے کیا جواب ملتا ہے۔'

تاہم انہوں نے کہا کہ اب گیند وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کے کورٹ میں ہے،اب ان پر ہے کہ  وہ اسلام آبادکے ان اقدامات کا کیا اور کس طرح جواب دیتی ہیں۔

دوسری طرف مشاہد حسین سید پر امیدہیں کہ ڈھاکہ اسلام آباد کو مثبت جواب  دے گا۔' میں بحیثیت صحافی دو مرتبہ شیخ حسینہ کا انٹرویو کر چکا ہوں اور میرا اندازہ ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر بنانا چاہتی ہیں۔'

تاہم بین الاقوامی امور کے ماہر پروفیسر ڈاکٹر رفعت حسین بنگلہ دیش کی جانب سے کسی مثبت جواب کی توقع نہیں رکھتے۔ ان کا کہنا تھا کہ شیخ حسینہ واجد کی جماعت عوامی لیگ پاکستان سے ایک طرح کی دشمنی رکھتی ہے اور چاہتی ہے کہ اسلام آباد 1971 کے واقعات کی معافی مانگے۔

بھارت اور چین عناصر

بنگلہ دیش اور بھارت کے درمیان شروع سے ہی تعلقات بہتر رہے ہیں، جس کی وجہ بنگلہ دیش کے معرض وجود میں آنے میں بھارت کا اہم کردار بتایا جاتا ہے۔

تاہم گذشتہ سال بھارت میں متنازع  شہریت ترمیمی ایکٹ کے نفاذ کے بعد نئی دہلی اور ڈھاکہ میں دوریاں بڑھتی نظر آئیں۔ بھارت اور بنگلہ دیش کے درمیان گذشتہ سال پیدا ہونے والی انہی دوریوں کو ڈھاکہ اور اسلام آباد کی نزدیکیوں کی وجہ بتایا جا رہا ہے۔

سابق سفیر ریاض حسین کھوکھر نے کہا کہ بھارت اور بنگلہ دیش کے درمیان گذشتہ ایک سال کے دوران تناؤ میں اضافہ ہوا ہے اور لگتا ہے کہ اسی وجہ سے شیخ حسینہ واجد کا جھکاؤ پاکستان کی طرف بڑھا ہے۔

ڈاکٹر نذیر حسین کا کہنا تھا کہ حالیہ برسوں میں بھارت کا خطے میں تسلط بڑھتا جارہا ہےاور بی جے پی کی ہندتوا کی آئیڈیالوجی نے جنوبی ایشیا کے کئی چھوٹے ممالک کو ڈرا دیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ نیپال، بھوٹان اور سری لنکا جیسے ملکوں میں بھی احساس موجود ہے کہ ہندتوا سے ان کو نقصان پہنچ سکتا ہے اور یہی خطرہ شاید بنگلہ دیش نے بھی محسوس کیا ہے۔

بعض ماہرین کے خیال میں بھارت سے دوری کی وجہ سے ڈھاکہ میں چین کے اثر رسوخ میں اضافہ ہوا ہےاور یہی وجہ بنی پاکستان اور بنگلہ دیش کے قریب آنے کی۔

پروفیسر رفعت حسین نے کہا کہ چین خطے کے تمام ممالک سے بہتر تعلقات رکھنا چاہتا ہے اور بھارت اس وقت ایک حصار میں جکڑا ہوا ہے، یہ چین کے لیے ایک بہترین موقع ہو سکتا ہے۔

ڈاکٹر نذید حسین نے کہا کہ اب نیپال جیسا چھوٹا ملک بھی بھارت کو آنکھیں دکھا رہا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ دوست ممالک میں مختلف موضوعات پر باتیں ہوتی ہیں،کوئی شک نہیں کہ چین نے پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان تعلقات بہتر بنانے میں کوئی کردار ادا کیا ہو۔

تلخ ماضی اور مشترکات

موجودہ بنگلہ دیش کبھی مشرقی پاکستان کی حیثیت سے مملکتِ پاکستان کا حصہ ہوا کرتا تھا، جو 1971 میں پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ کے نتیجے میں آزاد ملک کی حیثیت سے دنیا کے نقشے پر ابھرا۔

مشرقی اور مغربی پاکستان کا جدا ہونا اور بنگلہ دیش کا معرض وجود میں آنا پرامن اور دوستانہ ماحول میں وقوع پذیر نہیں ہوئے بلکہ ان واقعات سے کئی تلخ یادیں وابستہ ہیں جس کے باعث دونوں ملکوں کے درمیان شروع سے ہی بہتر تعلقات استوار نہیں ہو پائے تھے۔

بنگلہ دیش کی موجودہ وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کے والد شیخ مجیب الرحمٰن 1971 میں عوامی لیگ کے سربراہ تھے اور بنگلہ دیش بننے کے بعد ملک کے پہلے صدر بھی بنے۔ انہیں بنگلہ دیش میں بنگاباندھو (بنگال کا دوست) کا خطاب حاصل ہے۔

مختلف ادوار میں پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان تعلقات اتار چڑھاؤ کا شکار رہے ہیں۔شیخ حسینہ واجد نے اپنی جماعت عوامی لیگ کے دوسرے دور حکومت (2009)کے دوران 1971 میں رونما ہونے والے جنگی جرائم کے مقدمات شروع کیے اور کئی سیاسی و غیر سیاسی افراد کو سزائیں  دی گئیں جس کے خلاف پاکستان میں شدید ردعمل دیکھنے میں آیا۔

ان واقعات کے باعث اسلام آباد اور ڈھاکہ کے درمیان دوریوں میں مزید اضافہ ہوا۔تاہم تمام تر اختلافات اور ماضی کی تلخ یادوں کے باوجود دونوں ملکوں میں کچھ مشترکہ باتیں بھی پائی جاتی ہیں۔

پاکستان اور بنگلہ دیش برٹش انڈیا کا حصہ رہ چکے ہیں جبکہ 1947 میں بھارت کی تقسیم کے نتیجے  میں دونوں کو پاکستان کی شکل میں آزادی حاصل ہوئی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دونوں ملکوں میں اکثریتی آبادی کا مذہب اسلام ہے اور دونوں قوموں کے درمیان قریبی ثقافتی اور تہذیبی مشترکات موجود ہیں۔

اسلام آباد میں قائد اعظم یونیورسٹی میں بین الاقوامی امور کے استاد ڈاکٹر نذیر حسین دونوں ملکوں کے درمیان بہتر تعلقات کی کوششوں کو خوش آئند قرار دیتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ دونوں ملکوں کے درمیان برف کا پگھلنا ضروری اور وقت کی ضرورت ہے۔

ڈاکٹر نذیر حسین کا خیال ہے کہ پاکستان اور بنگلہ دیش کی عوام ایک دوسرے سے ماضی، ثقافتی، تہذیبی اور مذہبی رشتوں میں جڑے ہوئے ہیں اور دونوں قوموں کے درمیان ایک قدرتی ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔

مشاہد حسین سید نے اس سلسلے میں گذشتہ ماہ انتقال کرنے والے بنگالی پائلٹ سیف الاعظم کا ذکر کیا، جنہوں نے پاکستان ایئر فورس میں فلائٹ لیفٹیننٹ کی حیثیت سے 1965 کی پاکستان بھارت جنگ میں بھارتی اور عرب اسرائیلی جنگ (1967) میں اسرائیل کے طیارے گرائے تھے۔

انہوں نے کہا کہ سیف الاعظم پاکستان اور بنگلہ دیش کا مشترکہ ورثہ ہیں اور اس کے علاوہ بھی کئی دوسری چیزیں ہیں جو دونوں ملک شیئر کرتے ہیں۔ 

انہوں نے مزید کہا کہ اکتوبر 2019 میں بنگلہ دیش میں تین لاکھ افراد نے کشمیری مسلمانوں کے حق میں مظاہرہ کیا تھا۔

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست