دوہری شہریت اور حب الوطنی

دوہری شخصیت پر ہونے والی جذباتی بحث پر مجھے مزاحیہ پروگرام ’ففٹی ففٹی‘ کا وہ سین یاد آ جاتا ہے جب پولیس کا سپاہی ایک آدمی کو گاڑی کی چھت پر توپ لے جانے کی اجازت دے دیتا ہے لیکن اس پر شک کرتا ہے کہ اس کے پاس گاڑی میں ناجائز اسلحہ ہے۔

(کینوا)

ہم شاید ایک ہیجانی قوم ہیں جس کا براہ راست تعلق ہماری نظام تعلیم سے ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کے ہر معاملے میں ہم قانون اور حقائق کو سامنے رکھنے کی بجائے جذباتی بنیادوں پر فیصلے کرتے ہیں۔

اس بات کا فیصلہ کہ کون محب وطن یا غدار ہے یا نہیں ہے استحقاق صرف ملک کی عدالت کو ہے۔ لیکن ہم ہر روز ایک دوسرے پر کرپٹ، غدار اور کافر ہونے کے الزامات لگاتے رہتے ہیں۔

یہ تحریر آپ مصنف کی آواز میں یہاں سن بھی سکتے ہیں

 

میں نے ہمیشہ یہ سیاسی پوزیشن رکھی ہے کہ دوہری شہریت کے حامل لوگوں کو نہ تو اسمبلی کا ممبر بنانا چاہیے اور نہ ہی کابینہ کا حصہ۔ لیکن جو لوگ دوہری شہریت نہیں رکھتے اور اقامہ رکھتے ہیں انہوں نے کسی دوسرے ملک سے وفاداری کا حلف نہیں اٹھایا اور وہ اسمبلی کا ممبر بھی بن سکتے ہیں اور کابینہ کا بھی۔ انہیں کوئی بھی اہم عہدہ دینے سے پہلے ریاستی اداروں کا یہ فرض ہے کہ ان کے بارے میں معلومات اکھٹی کریں اور اگر زرا برابر بھی یہ شک ہو کے ان کے کسی غیرملکی ادارے یا مشکوک لوگوں سے روابط ہیں تو انہیں کابینہ کا حصہ بننے سے روکا جائے۔

ڈاکٹر معید یوسف کی کارکردگی سے بھی میں مطمئن نہیں ہوں اور نہ ان کے خیالات سے مکمل اتفاق کرتا ہوں۔ لیکن کیا بغیر ثبوت کے یہ مناسب ہے کہ انہیں غدار کہا جائے اور ان کی حب الوطنی پر شک کیا جائے۔ کیا ریاستی اداروں نے ان کی تعیناتی سے پہلے ان کی سکیورٹی کلیئرنس نہیں کی؟ اگر ان کی سکیورٹی کلیئرنس میں کچھ مسائل تھے تو کیا وزیر اعظم کو اس کی اطلاع نہیں دی گئی تھی؟ کیا کسی دوسرے ملک نے معید کو مشیر بنانے پر اصرار کیا؟ ان تمام سوالوں کے جوابات اگر نفی میں ہیں تو معید کی حب الوطنی پر شق کرنا صرف ایک تہمت ہے۔

نوجوان اگر جذباتی رجحانات رکھیں تو درگزر کیا جا سکتا ہے مگر انتہائی قابل اور پڑھے لوگ بھی جذبات کا ہاتھ تھامیں تو افسوس اور دکھ ہوتا ہے۔ سلیم صافی نے اپنے کالم میں اس بات کا تصور پیش کیا کہ چونکہ وہ ملک میں ہی رہے اور کبھی بیرون ملک نوکری نہیں کی اس لیے وہ محب وطن ہیں۔

اس اصول کے تحت جو صحافی ملک میں ہی رہتے ہیں لیکن غیرملکی خبر رساں ایجنسیوں میں کام کرتے ہیں ان کی حب الوطنی مشکوک ہونی چاہیے؟ یہ غلط اصول ہے۔ غیرملک میں کام کرنے والے غدار نہیں ٹھہرائے جا سکتے جب تک ان کی غداری کے شواہد سامنے نہ آ جائیں اور عدالت میں پیش کیے جائیں۔

جب 2012 میں میں نے اپنی کتاب اسلام کا عمرانی معاہدہ مکمل کی تو کئی بین الاقوامی ناشر نے اس کی اشاعت میں دلچسپی ظاہر کی۔ مگر میں نے اپنے عوام کی کیفیت پر غور کیا تو اس نتیجے پر پہنچا کہ کتاب اگر کسی مغربی ادارے نے شائع کی تو اس کے مواد پر مکالمہ  کرنے کی بجائے مجھے ساری عمر اس بات کا دفع کرنا پڑے گا کے یہ مغربی سازش نہیں ہے۔ اس لیے یہ فیصلہ کیا کہ کتاب کسی ادارے کے تحت شائع نہ ہو اور خود ہی یہ کام کیا جائے۔ اس کا نقصان یہ ہوا کے کتاب کی مارکیٹنگ اتنی اچھی نہ ہو سکی جتنی کسی بڑے پبلشر کے ذریعہ ہوتی۔ میں آج جب دوہری شہریت پر ہونے والی جذباتی بحث دیکھتا ہوں تو اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کے صحیح فیصلہ کیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

آج اسمبلیوں میں بھی کلبوشن جادیو کے معاملے پر حزب اختلاف کی طرف سے حکومت پر  مودی کا یار ہونے کے الزامات لگائے جا رہے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ عمران خان سے بہتر دوست نریندر مودی کو نہیں مل سکتا۔ اس لیے نہیں کہ عمران خان ملک کا غدار ہے بلکہ اس لیے کے ان کے پاس اور ان کی ٹیم میں خارجہ پالیسی کے معاملات سنبھالنے کی صلاحیت متنازعہ ہے۔ کسی بھی دشمن ملک کے لیے اس سے بڑا موقع کیا ہو سکتا ہے کہ نااہلی کا راج ہو۔ کشمیر کھونے کے علاوہ پچھلے دو سال میں ہم افغانستان، ایران اور چین ان تمام پڑوسی ممالک سے ہمارے تعلقات میں اپنے قومی مفادات کا تحفظ کرنے میں کوتاہیاں نظر آتی ہیں۔

پاکستان میں دوہری شخصیت پر ہونے والی جذباتی بحث پر مجھے مزاحیہ پروگرام ’ففٹی ففٹی‘ کا وہ سین یاد آ جاتا ہے جب پولیس کا سپاہی ایک آدمی کو گاڑی کی چھت پر توپ لے جانے کی اجازت دے دیتا ہے لیکن اس پر شک کرتا ہے کہ اس کے پاس گاڑی میں ناجائز اسلحہ ہے۔

2018 کے الیکشن میں فیصل واوڈا نے اپنے الیکشن فارم میں یہ اطلاعات کے مطابق لکھا کہ وہ امریکہ کے شہر شکاگو میں پیدا ہوئے ہیں یعنی پیدائشی امریکی ہیں مگر وہ الیکشن لڑنے کے لیے اہل قرار پائے اور اب ہمارے آبی وسائل جن سے ملک کا مستقبل وابستہ ہے اس کے وزیر ہیں۔

 ریٹرنگ آفیسر نہ یہ نہیں پوچھا کہ شہریت چھوڑنے کا ثبوت کہاں ہے اور جو شخص پیدا ہی امریکہ میں ہوا ہو کیا وہ شہریت مستقل چھوڑ بھی سکتا ہے یا نہیں؟ جب عدلیہ کے ریٹنگ آفیسر اس قسم کے ہوں کہ انہیں نظروں کے سامنے بھی حقائق نظر نہ آ رہے ہوں تو اس ملک میں انصاف ناپید اور جذباتیت عام نہ ہو تو کیا ہو؟

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ