طالبان کا دوبارہ مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہوں: پندرہ سالہ قمر گل

'گل کے گھر پر ہونے والے حملے میں خاندانی جھگڑے کا پہلو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کیوں کہ ان کے گھر پر آنے والے حملہ آوروں میں قمر گل کا اپنا شوہر بھی شامل تھا۔'

(اے ایف پی)

دو طالبان کو گولی مار کر ہلاک کرنے والی نو عمر افغان لڑکی نے مستقبل میں بھی شدت پسندوں کا مقابلہ کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔

پندرہ سالہ قمر گل نے گذشتہ ہفتے وسطی صوبے غور کے ایک دور دراز گاؤں میں اپنے گھر پر حملہ آور طالبان شدت پسندوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا تھا۔

اس لڑائی کے دوران اپنے والدین کی ہلاکت کا ’انتقام‘ لینے کے لیے دو طالبان شدت پسندوں کو ہلاک کرنے والی قمر گل اور ان کے چھوٹے بھائی کو سوشل میڈیا پر ہیرو کی حیثیت سے سراہا جا رہا ہے۔

گل نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو اپنے ایک رشتے دار کے گھر سے ٹیلیفون پر بتایا: ’میں ان سے اب مزید خوفزدہ نہیں ہوں اور میں دوبارہ لڑنے کے لیے بھی تیار ہوں۔‘

گل کی بندوق اٹھائے تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی ہے جہاں بہت سے لوگ ان کی جرات کی تعریف کر رہے ہیں وہیں کچھ کے مطابق ان کی زندگی کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے اس لیے انہیں ملک چھوڑ دینا چاہیے۔

گل نے گذشتہ ہفتے پیش آنے والا واقعہ سناتے ہوئے کہا: ’میں اپنے کمرے میں اپنے 12 سالہ بھائی کے ساتھ سو رہی تھی جب ہم نے طالبان کی جانب سے اپنے گھر کا دروازہ توڑنے کی آواز سنی۔‘

گل نے کہا: ’میری والدہ انہیں روکنے کی کوشش کر رہی تھیں لیکن تب تک وہ دروازہ توڑ چکے تھے۔ اس کے بعد طالبان نے میرے والد اور والدہ دونوں کو باہر لے جاکر میری آنکھوں کے سامنے گولی مار دی تھی۔‘

انہوں نے بتایا کہ وہ یہ سب کچھ دیکھ کر بری طرح گھبرا گئی تھیں لیکن پھر انہوں نے حملہ آوروں کا مقابلہ کرنے اور اپنے والدین کی ہلاکت کا بدلہ لینے کا فیصلہ کیا۔

انہوں نے بتایا کہ کس طرح ان کے بھائی اور انہوں نے گھر میں رکھی اپنے والد کی بندوقوں سے طالبان پر فائرنگ شروع کر دی۔

’میرے پاس اپنے والد کی بندوق اٹھانے اور ان پر فائرنگ کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ میری فائرنگ سے دو طالبان ہلاک اور ایک زخمی ہوا۔‘

گل نے مزید بتایا کہ گاؤں کے دوسرے لوگوں کے پہنچنے تک انہوں نے فائرنگ جاری رکھی اور اسی دوران طالبان وہاں سے فرار ہوگئے۔

گل نے بتایا: ’میرے والد نے مجھے اے کے 47 رائفل چلانا سکھایا تھا۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’مجھے فخر ہے کہ میں نے اپنے والدین کے قاتلوں کو مار ڈالا۔ میں نے انہیں اس لیے مارا کیوں کہ انہوں نے میرے والدین کو بے دردی سے قتل کر دیا تھا اور اس لیے بھی  کیوں کہ مجھے معلوم تھا کہ وہ مجھے اور میرے چھوٹے بھائی کو بھی مار ڈالیں گے۔‘

گل کو افسوس ہے کہ وہ اپنی والدہ اور والد کو الوداع کرنے سے قاصر تھیں۔

انہوں نے کہا: ’طالبان کو ہلاک کرنے کے بعد میں اپنے والدین کے پاس پہنچی لیکن وہ سانس نہیں لے رہے تھے۔ مجھے دکھ ہے میں ان سے آخری بار بات نہیں کرسکی۔‘

خاندانی جھگڑا؟

نیو یارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق گل کے گھر پر ہونے والے حملے میں خاندانی جھگڑے کا پہلو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کیوں کہ ان کے گھر پر آنے والے حملہ آوروں میں قمر گل کا اپنا شوہر بھی شامل تھا۔

اس رپورٹ میں گل کے رشتہ داروں اور مقامی عہدیداروں کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ گل کا شوہر خاندانی جھگڑے کے بعد انہیں زبردستی اپنے ساتھ واپس لے جانے کا خواہاں تھا۔

دوسری جانب افغان حکام نے اے ایف پی کو بتایا کہ گل کے والد گاؤں کے سربراہ تھے اور طالبان ان کو اس لیے ہلاک کرنے آئے تھے کیونکہ انہوں نے حکومت کی حمایت کی تھی۔

طالبان حکومت یا سیکیورٹی فورسز کے مخبر ہونے کے شبہے میں کئی افراد کو ہلاک کر چکے ہیں۔

سماجی کارکنوں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اس بہادری کے بعد طالبان گل اور ان کے خاندان کو ہلاک کر سکتے ہیں۔

حقوق نسواں کی نامور کارکن فوزیہ کوفی نے فیس بک پر لکھا: ’میں مطالبہ کرتی ہوں کہ صدر غنی انھیں محفوظ مقام پر منتقل کرنے میں مدد کریں کیونکہ ان کی اور ان کے خاندان کی زندگیوں کو خطرہ ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

لیکن گل کے بڑے بھائی عبدالقدیر نے کہا کہ وہ اپنے خاندان کی سلامتی کے لیے خوفزدہ نہیں ہیں۔

انہوں نے اے ایف پی کو بتایا: ’ہم ایک محفوظ جگہ پر ہیں اور ہماری حفاظت کے لیے بہت سے پولیس اہلکار موجود ہیں۔‘

وزارت دفاع کی ایک اہلکار منیرا یوسف زادہ نے کہا کہ گل کا بہادرانہ قدم افغان خواتین کی جانب سے طالبان کے لیے ایک پیغام تھا۔

انہوں نے ٹویٹر پر لکھا: طالبان کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ آج کی افغان خواتین ان کے دور حکومت کی خواتین سے مختلف ہیں۔

افغان صدر کے ترجمان صدیق صدیقی نے اے ایف پی کو بتایا کہ اشرف غنی نے بے رحم دشمن سے اپنے خاندان کا دفاع کرنے پر گل کی بہادری کو سراہا ہے۔

دوسری جانب طالبان کے ترجمان نے تصدیق کی ہے کہ ان کے گروپ نے اس علاقے میں آپریشن کیا تھا لیکن انہوں نے اس بات کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ ان کا کوئی ساتھی اس دوران ہلاک نہیں ہوا۔

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا