اپوزیشن نے نیب ترمیمی قانون اجلاس کا بائیکاٹ کر دیا

سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے واک آؤٹ کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت ہماری ڈیمانڈز پر بات نہیں کررہی اس لیے کمیٹی سے واک آؤٹ کیا۔ اب ہماری مشاورت اے پی سی میں ہوگی، ہمارے فیصلے اب اے پی سی سے ہوں گے۔

(ٹوئٹر)

خصوصی پارلیمانی کمیٹی برائے قانون سازی کے تیسرے اجلاس سے چند گھنٹے قبل نیب نے بیان جاری کر دیا جس کےمطابق نیب قانون میں ترمیم کرنے والی پارلیمانی کمیٹی کے رکن شاہد خاقان عباسی کے خلاف ضمنی ریفرنس کی منظوری دی گئی۔

نیب کے بیان کے بعد اپوزیشن نے خصوصی پارلیمانی کمیٹی کا بائیکاٹ کر دیا اور کہا پہلے نیب قوانین پر ترمیم کے حوالے سے بات ہو گی۔

واضح رہے کہ نیب نے منگل کو سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی ان کے بیٹے عبداللہ خاقان کے خلاف بھی بدعنوانی کا ضمنی ریفرنس عدالت میں دائر کرنے کی منظوری دی ہے ۔  نیب کے مطابق ملزمان نے 'ایل این جی ٹرمینل ون کا ٹھیکہ غیر شفاف انداز میں دیا جس سے   کم و بیش 7.438ارب  روپے کا نقصان ہوا۔'

دوسری جانب پارلیمانی کمیٹی برائے قانون سازی امور کے چیئرمین شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ہم نے اپوزیشن سےکہا کہ ایف اے ٹی ایف قوانین بنانے کی مقررہ مدت ہے لیکن اپوزیشن نے کہا پیکج ڈیل ہوگی، نیب قوانین پر بھی ساتھ ہی بات کریں، بات نیب قانون کے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتی۔'

کمیٹی چئیرمین شاہ محمود قریشی نے مزید کہا کہ ایف اے ٹی ایف کے حوالے سے ہمیں 4 بلوں پر فوری قانون سازی کرنی ہے جس کے بعد قانون سازی سے متعلق رپورٹ ایف اے ٹی ایف کمیٹی کو بھیجی جائے گی اور ایف اے ٹی ایف یہ سفارشات اپنے اکتوبر میں ہونے والے اجلاس میں پیش کرے گا جس  میں  پاکستان کو گرے لسٹ سےنکالنے یا نہ نکالنے کا فیصلہ ہوگا۔

شاہد خاقان عباسی نے واک آؤٹ کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت ہماری ڈیمانڈز پر بات نہیں کررہی اس لیے کمیٹی سے واک آؤٹ کیا۔ اب ہماری مشاورت اے پی سی میں ہوگی، ہمارے فیصلے اب اے پی سی سے ہوں گے۔

اپوزیشن کے بائیکاٹ کے بعد پارلیمانی کمیٹی برائے قانون سازی کااجلاس نہ ہوسکا۔ حکومتی ایم این اے عامر ڈوگر نےمیڈیا نمائندوں کو بتایا کہ بیک ڈور رابطے چل رہے ہیں۔ کل اپوزیشن سے پھر رابطہ کرنے کی کوشش کریں گے۔

اپوزیشن اور حکومت کا ڈیڈ لاک کس بات پر ہے؟

واضح رہے کہ خصوصی پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں نیب ترمیمی بل کے علاوہ، دیگر چار بل بھی موجود ہیں۔ فروغ نسیم نے میڈیا کو بتایا کہ ایف اے ٹی ایف کے لیے تین قوانین بنانے ہیں۔ اس کی ڈیڈ لائن چھ اگست ہے۔

ایک اقوام متحدہ کا قانون ہے دوسرا انسداد دہشت گردی کا قانون ہے جس کا تعلق اقوام متحدہ سیکیورٹی کونسل سے ہے۔جبکہ تیسرا قانون باہمی قانونی معاونت کا قانون ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ تینوں قوانین ہر صورت چھ اگست تک پاس کرنے ہیں کیونکہ ایف اے ٹی ایف نے پاکستان سے کہہ رکھا ہے کہ مقررہ وقت تک اگر پاکستان یہ قوانین نہیں بنائے گا تو گرے لسٹ سے نہیں نکلے گا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ اپوزیشن نے منع تو نہیں کیا لیکن ایف اے ٹی ایف کے معاملے کو نیب سے نتھی کر دیا۔

فروغ نسیم نے میڈیا سے کہا کہ اپوزیشن کی جانب سے نیب ترمیمی بل میں تجاویز حکومت کے لیے قابل قبول نہیں ہیں اور وہ حکومت کے اینٹی کرپشن بیانیے کے خلاف ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کی ترجیح ایف اے ٹی ایف کابل پاس کرنا ہے لیکن اپوزیشن نیب ترمیم پر اڑ چکی ہے۔

اپوزیشن کی تجاویز کیا ہیں؟

اس سوال پر فروغ نسیم نے بتایا کہ اپوزیشن نے تجاویز دی ہیں کہ منی لانڈرنگ بل کو ایف اے ٹی ایف سے ہٹا دیاجائے، جب تک جرم ثابت نہ ہو نیب گرفتاری نہ کرے۔ اگر جرم ثابت بھی ہو جائے تو جب تک اپیلیں جاری رہیں گی، ان کی پارلیمان کی رکنیت برقرار رہے۔ نیب کے لیے پانچ سال کا ٹائم رکھیں اگر پانچ سال کے اندر کسی کا جرم سامنے آئے تو نیب قوانین کا اطلاق ہو۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایسی ڈیمانڈز ہیں جو قابل قبول نہیں ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کہا اپوزیشن کو ہم نے بتایا تھا کہ جو ہمارا نیب آرڈیننس 2019 تھا اس کے ارد گرد ہم ترامیم کر سکیں گےاس سے زیادہ کی گنجائش نہیں ہے۔ لیکن اب اس آرڈیننس کو بل کی شکل دے دی گئی تھی۔

اپوزیشن کی یہ بھی ڈیمانڈ ہے کہ نیب کا اطلاق سولہ نومبر  1999 سے ہونا چاہیے۔ یعنی یکم جنوری 1995 سے لے کرنومبر 1999 تک جو کسی کو سزا ہوئی ہے وہ ختم ہو جائے گی۔ نیب کے لیے کیس فائل کرنے کی مدت پانچ سال ہوگی۔ یعنی اگر ابھی 2020 ہے اور 2015 سے پرانے کیس پر نیب چالان نہیں کر سکتی۔

فروغ نسیم نے کہا کہ ایف اے ٹی ایف کے بل کو نیب کے ساتھ نتھی نہ کریں نیب کا معاملہ ان کا ذاتی جبکہ ایف اے ٹی ایف کا معاملہ پاکستان کا معاملہ ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان