بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں ہر سو سناٹا

صورت حال پر باریک بینی سے نظر گزر رکھنے کے لیے ڈرون کیمرے استعمال کیے جارہے ہیں۔ ان ڈرون کیمرے کے ذریعے یہ دیکھا جارہا ہے کہ کہیں پر لوگ احتجاج کے لیے جمع تو نہیں ہو رہے ہیں۔

(تصاویر: عمر گنائی، فوٹو جرنلسٹ)

بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کے خاتمے کا آج ایک سال مکمل ہوگیا ہے۔ دارالحکومت سری نگر سمیت کشمیر بھر میں ہر سو سناٹا چھایا ہوا ہے۔ سڑکیں سنسان ہیں اور لوگ اپنے گھروں تک ہی محدود ہیں۔

انتظامیہ کی جانب سے پیر کی صبح نافذ کیا جانے والا کرفیو بدھ کو مسلسل دوسرے دن بھی جاری ہے۔ سکیورٹی فورسز کی گاڑیاں آبادی والے علاقوں میں گشت کر رہی ہیں اور ان میں نصب لاؤڈ سپیکروں کے ذریعے اعلان کیا جا رہا ہے کہ کرفیو نافذ ہے اور گھر سے باہر آنے والوں کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے گی۔

صورت حال پر باریک بینی سے نظر گزر رکھنے کے لیے ڈرون کیمرے استعمال کیے جارہے ہیں۔ ان ڈرون کیمروں کے ذریعے یہ دیکھا جارہا ہے کہ کہیں پر لوگ احتجاج کے لیے جمع تو نہیں ہو رہے ہیں۔

ذرائع کے مطابق سری نگر میں پیر کے روز پولیس، فوج، خفیہ اداروں اور سول انتظامیہ کے عہدیداروں کا ایک ہنگامی اجلاس منعقد ہوا جس میں کشمیر میں منگل سے دو دن کے لیے کرفیو نافذ کرنے کا فیصلہ لیا گیا تھا۔

کرفیو کے نفاذ کے حوالے سے جاری حکم ناموں میں کہا گیا ہے کہ کشمیر پولیس کو خدشہ ہے کہ پانچ اگست کے موقع پر امن و قانون کی صورتحال کو بگاڑنے کی کوششیں ہوسکتی ہیں کیونکہ علیحدگی پسند اور پاکستانی حمایت یافتہ تنظیمیں پانچ اگست کو 'یوم سیاہ' کے طور پر منانے کا منصوبہ رکھتی ہیں۔

حکم ناموں میں کہا گیا ہے: 'مصدقہ اطلاعات موصول ہوئی ہیں کہ پانچ اگست کو پرتشدد احتجاجی مظاہرے ہوسکتے ہیں جس کے نتیجے میں عوامی جان و مال کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ لہٰذا کرفیو کا نفاذ لازمی ہے جو 4 اگست کی صبح سے اگلے 48 گھنٹوں تک نافذ رہے گا۔'

اگرچہ ضلع مجسٹریٹ سری نگر ڈاکٹر شاہد اقبال چوہدری نے منگل کی رات دعویٰ کیا کہ شہر سے کرفیو ہٹایا گیا ہے لیکن بدھ کی صبح صورت حال اس دعوے کے یکسر برعکس نظر آئی۔ بندشوں کی صورتحال جوں کی توں قائم ہے۔

کشمیر میں حکومت نے کرونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے نافذ لاک ڈاؤن میں بھی 8 اگست تک توسیع کا اعلان کیا ہے جس دوران بھی لوگوں کی آزادانہ نقل و حرکت پر سخت بندشیں عائد رہیں گی۔

انڈپینڈنٹ اردو کو دارالحکومت سری نگر سے موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق شہر میں جگہ جگہ پر سڑکیں خاردار تار اور دیگر رکاوٹیں کھڑی کر کے سیل کی گئی ہیں نیز کرفیو کو سختی سے نافذ کرنے کے لیے ہزاروں کی تعداد میں سکیورٹی اہلکار سڑکوں اور گلی کوچوں میں تعینات ہیں۔

سری نگر کا قلب کہلائے جانے والے تاریخی لال چوک کی طرف جانے والی سبھی سڑکیں بھی مکمل طور پر بند ہیں۔ یہاں تعینات سکیورٹی اہلکار کسی کو بھی لال چوک کے بیچوں بیچ واقع گھنٹہ گھر کے نزدیک جانے کی اجازت نہیں دے رہے ہیں۔

کشمیر کے دیگر اضلاع سے بھی ایسی ہی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ تاہم دیہی علاقوں کو پابندیوں سے مستثنیٰ رکھا گیا ہے کیونکہ ایسے علاقوں میں بڑی تعداد میں سکیورٹی فورسز کے کیمپ قائم ہیں۔

دوسری جانب گذشتہ برس پانچ اگست کو خصوصی آئینی حیثیت کے خاتمے کے بعد کشمیر سے الگ کیے جانے والے خطہ لداخ کے شیعہ اکثریتی ضلع کرگل میں آج ہڑتال کی جا رہی ہے۔

ہڑتال کی اپیل دینے والی مذہبی تنظیم 'انجمن صاحب الزمان' کا کہنا ہے کہ کشمیر کے بٹوارے کا فیصلہ لوگوں کی منشا کے منافی تھا اور پانچ اگست 2019 کے فیصلوں کی واپسی تک کرگل کی عوام کا احتجاج جاری رہے گا۔

واضح رہے کہ بھارت میں برسر اقتدار ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت نے گذشتہ برس پانچ اگست کو مسلم اکثریتی کشمیر کو خصوصی آئینی حیثیت عطا کرنے والی آئین ہند کی دفعات 370 اور 35 اے منسوخ کیں اور اس متنازع خطے کو دو حصوں میں تقسیم کر کے دو وفاق کے زیر انتظام علاقوں میں تبدیل کیا۔

بی جے پی حکومت کے ان فیصلوں کے بعد سے کشمیر میں لاک ڈاؤن جاری ہے جس کا آج ایک سال مکمل ہوگیا ہے۔ مسلسل لاک ڈاؤن کی وجہ سے کشمیر کی معیشت وینٹی لیٹر پر ہے اور معیشت کی ریڑھ کی ہڈی تصور کیا جانے والا شعبہ سیاحت عضو معطل ہو کر رہ گیا ہے۔

بی جے پی 'پندرہ روزہ جشن' منائے گی

ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی نے کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کے خاتمے کا ایک سال مکمل ہونے پر پندرہ دنوں تک جاری رہنے والا جشن منانے کا اعلان کر رکھا ہے۔

پارٹی کی جانب سے فراہم کردہ تفصیلات کے مطابق پندرہ روزہ جشن کا آغاز پانچ اگست کو جموں و کشمیر کے ہر ایک علاقے میں بھارتی ترنگا لہرانے اور قومی ترانہ بجانے سے ہوگا۔ اس جشن کے لیے مبینہ طور پر سرکاری پنچایت گھر استعمال کیے جائیں گے۔

بی جے پی جموں و کشمیر یونٹ کے جنرل سکریٹری ڈاکٹر دیویندر کمار منیال نے بتایا: 'جشن منانے کا سلسلہ پندرہ دنوں تک جاری رہے گا۔ پانچ اگست کو صبح نو بجے سے گیارہ بجے تک جموں و کشمیر میں ہر علاقے میں قومی پرچم لہرایا جائے گا اور قومی ترانہ بجایا جائے گا۔ اسی دن شام کے وقت ہر گھر میں دیپک جلایا جائے گا۔'

ان کا مزید کہنا تھا کہ جشن منانے کے دوران کرونا وائرس کی روک تھام کے متعلق گائیڈ لائنز کو ملحوظ نظر رکھا جائے گا۔ ایک ورچول یا آن لائن ریلی بھی منعقد ہوگی جس کو بی جے پی کے وزرا نئی دہلی سے خطاب کریں گے۔

انڈپینڈنٹ اردو نے جب بی جے پی کشمیر یونٹ کے جنرل سکریٹری (آرگنائزیشنز) اشوک کول سے پوچھا کہ 'کیا کرفیو کے سائے تلے جشن کا انعقاد ممکن ہے' تو ان کا جواب تھا: 'ہم کرفیو کی خلاف ورزی کے مرتکب نہیں ہوں گے۔ جن علاقوں میں کرفیو نہیں ہوگا وہاں پندرہ روزہ پروگرام پر من و عن عمل درآمد ہوگا۔ جہاں کرفیو نافذ ہے وہاں تقریبات کے پروگرام میں تبدیلی لائی جائے گی۔'

جموں و کشمیراپنی پارٹی کے صدر سید محمد الطاف بخاری کا کہنا ہے کہ یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ بی جے پی کس چیز کا جشن منا رہی ہے۔

ان کے بقول: 'میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ بی جے پی کس چیز کا جشن منانے جا رہی ہے۔ اگر وہ اس بات کا جشن منا رہے ہیں کہ لوگوں کو اس ایک سال کے دوران بے پناہ اذیتوں اور مصائب کا سامنا کرنا پڑا ہے تو جائز ہے۔'

الطاف بخاری کے مطابق کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت یہاں کی ترقی میں کوئی رکاوٹ نہیں تھی۔

ان کا کہنا تھا: 'اس ایک سال نے ثابت کر دیا ہے کہ یہاں کی ترقی دفعہ 370 یا دفعہ 35 اے کی وجہ سے جمود کی شکار نہیں تھی۔ ہم نے اس ایک سال کے دوران کوئی ترقی نہیں دیکھی ہے۔ ہم پیچھے ہی چلے گئے ہیں۔'

دی جموں اینڈ کشمیر سول سوسائٹی کوآرڈی نیشن کمیٹی کے رکن اور عوامی نیشنل کانفرنس کے سینیئر نائب صدر مظفر احمد شاہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ بھارتی حکومت نے کشمیر اور کشمیریوں کو کھو دیا ہے۔

ان کے بقول: 'کشمیری لاک ڈاؤن اور کریک ڈاؤنز کے عادی ہیں۔ بے شک ہمارے بچے اور ان کے والدین مشکل صورتحال میں پھنسے ہوئے ہیں۔ کبھی کبھی ڈپرشن کے شکار ہوجاتے ہیں۔ لیکن پھر بھی کشمیری ایک باغیرت قوم ہے۔ بھارتی حکومت نے تو اچھا کام کردیا ہے۔ آج پوری دنیا کشمیر کی بات کرتی ہے۔'

مظفر شاہ نے دعویٰ کیا کہ بھارتی حکومت پانچ اگست 2019 کو یہاں تعینات کی گئی اضافی سکیورٹی فورسز پر ہر روز 100 سے 150 کروڑ روپے خرچ کرتی ہے۔

'اس کا مطلب ہے کہ بھارتی حکومت اپنے غیر جمہوری اور غیر آئینی فیصلے کو نافذ کرنے پر ہر روز 150 کروڑ روپے خرچ کرتی ہے۔ آج تک چالیس سے پچاس ہزار کروڑ روپے خرچ کیے جاچکے ہیں۔'

انہوں نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امت سے مخاطب ہو کر کہا: 'اگر آپ میں ہمت ہے تو یہاں ریفرنڈم کرائیں۔ آپ لوگوں سے ریفرنڈم کے ذریعے پوچھیں کہ آپ خصوصی آئینی حیثیت کے حق میں ہیں یا نہیں۔ پوری دنیا کو پتہ چل جائے گا کہ یہ فیصلہ صحیح تھا یا غلط۔'

بھارت نواز سیاسی جماعتوں نیشنل کانفرنس، پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی اور کانگریس نے 5 اگست کو تاریخ کا سب سے سیاہ باب قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ وہ دن ہے جب یکطرفہ، غیر جمہوری، غیر آئینی اور جبری طور پر جموں و کشمیر کے عوام کے جمہوری اور آئینی حقوق پر شب خون مارا گیا ہے۔

کشمیر کی علیحدگی پسند قیادت خاموش

کشمیر میں حکومت کا دعویٰ ہے کہ علیحدگی پسند تنظیمیں پانچ اگست کو 'یوم سیاہ' کے طور پر منانے کا منصوبہ بنا چکی ہیں لیکن زمینی حقیقت اس کے برعکس ہے۔ کشمیری علیحدگی پسند تنظیمیں، جو ہڑتال کی اپیلیں جاری کرنے کے لیے مشہور تھیں، کی جانب سے پانچ اگست کے موقع پر کوئی ایسی اپیل سامنے نہیں آئی ہے۔

کشمیری علیحدگی پسند قیادت گذشتہ ایک سال سے مکمل طور پر خاموش ہے۔ حال ہی میں کل جماعتی حریت کانفرنس سے الگ ہونے والے بزرگ مزاحمتی رہنما سید علی گیلانی اور حریت کانفرنس کے اپنے دھڑے کے چیئرمین میرواعظ مولوی عمر فاروق بالترتیب سری نگر میں نگین اور حیدر پورہ میں اپنی رہائش گاہوں پر نظربند ہیں۔ ان کی جانب سے کوئی بھی اخباری بیان سامنے نہیں آرہا ہے۔

اگرچہ میرواعظ کی قیادت والی حریت کانفرنس کی جانب سے پانچ اگست کے حوالے سے ایک بیان جاری ہوا ہے تاہم اس میں اس دن کوئی ہڑتال یا احتجاج کرنے کی اپیل نہیں کی گئی ہے۔

بیان میں پانچ اگست 2019 کے 'یکطرفہ' فیصلوں کو کشمیر کی المناک داستان کا ایک انتہائی افسوس ناک باب قرار دیتے ہوئے بھارت اور پاکستان کی حکومتوں سے کہا گیا ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر کے مستقل اور پائیدار حل کے لئے جلد از جلد بامعنی بات چیت کا آغاز کریں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

میرواعظ حریت دھڑے کے بیان میں کہا گیا ہے کہ ایک سال گذر چکا ہے اور لاک ڈاﺅنز اور گرفتاریوں اور نظر بندیوں کا سلسلہ ہنوز جاری ہے جبکہ یکے بعد دیگرے کشمیر مخالف اور اکثریت مخالف اقدامات اور قوانین اور آرڈیننسز کو کشمیر کے عوام پر مسلط کیا جارہا ہے جو کہ بھارتی حکومت کی جارحانہ پالیسیوں کی عکاس ہے۔ یہاں تک کہ مذہبی تقاریب پر بھی ہنوز پابندی جاری ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ جموں و کشمیر کی آبادی کے تناسب کو بگاڑنے کی سازش کے نتیجے میں اس کی متنازع حیثیت اور ہیئت کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا اور نا ہی اس حقیقت سے فرار اختیار کیا جاسکتا ہے کہ مسئلہ کشمیر کا پر امن حل نکالنا ناگزیر ہے۔

حریت بیان میں کہا گیا ہے کہ حکومت کے ان اقدامات اور کارروائیوں سے بلا امتیاز جموں و کشمیر کے تمام لوگوں اور خطوں میں شدید ناراضگی اور مایوسی میں اضافہ ہوا ہے اور یہاں کے عوام پر شدید دباؤ اور کریک ڈاؤن کے باوجود ان اقدامات کے خلاف ان کا احتجاج جاری ہے اور رہے گا۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ حریت نے روز اول سے جموں و کشمیر کے عوام کی خواہشات اور امنگوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کے پُرامن حل کی وکالت کی ہے اور وہ اپنے اس موقف پر قائم اور پُرعزم ہے۔

بیان میں بھارت اور پاکستان کی حکومتوں سے کہا گیا ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر کے مستقل اور پائیدار حل کے لیے جلد از جلد بامعنی بات چیت کا آغاز کریں اور اس عمل میں مسئلہ کے اہم فریق کشمیری عوام کی شرکت یقینی بنائیں کیونکہ اسی مسئلہ کی وجہ سے ہی گذشتہ 73 برسوں سے وہی اس کے شکار ہوئے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا