حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کے دو سینیئر ترین رہنماؤں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور وزیراعظم عمران خان کے قریبی ساتھی جہانگیر ترین کے درمیان اختلافات کا کھل کر سامنے آنا ٹی وی ٹاک شوز کے لیے تو اچھا ہے لیکن اگر غور سے دیکھا جائے تو اس میں نہ تو کوئی نئی بات ہے اور نہ ہی یہ اس جماعت کے اندر واحد اختلاف ہے۔
پی ٹی آئی کے اندر اختلافات کی خبریں اکثروبیشتر سامنے آتی رہتی ہیں، آیئے ایک نظر ڈالتے ہیں:
1۔ شاہ-ترین تناؤ
2018 کے عام انتخابات سے قبل بھی شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین کے درمیان اختلافات سامنے آئے تھے لیکن گذشتہ دنوں ایک اخباری کانفرنس میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے انتہائی محتاط اور سفارتی انداز میں بیان دیا کہ سپریم کورٹ کی جانب سے نااہل قرار دیے گئے جہانگیر ترین کا کابینہ کے اجلاسوں میں شرکت کرنا اچھا نہیں اور حزب اختلاف کو ایمونیشن فراہم کرتا ہے۔ جہانگیر ترین بھی چپ رہنے والے کہاں تھے۔ انہوں نے ترکی بہ ترکی جواب دیا کہ جب تک انہیں عمران خان کی حمایت حاصل ہے، انہیں کسی کی پروا نہیں۔
اس غیرضروری عوامی بیان بازی کے بعد تحریک انصاف کے اندر یہ تقسیم زیادہ گہری نظر آئی۔ شیریں مزاری، شفقت محمود، اسد عمر اور نعیم الحق جیسے ہیوی ویٹس گدی نشین شاہ محمود قریشی کے کیمپ میں ہیں جبکہ فواد چوہدری، پرویز خٹک اور عمر ایوب چینی کے بادشاہ کے حلقے میں بیٹھے ہیں۔ یہ اختلاف کیا رنگ لاتا ہے سب کی نظریں اسی پر لگی ہیں۔
2۔ فواد-نعیم گرما گرمی
اگرچہ سرکاری پاکستان ٹی وی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کی رعایا ہونی چاہیے لیکن ان کے بار بار کے احتجاج کے باوجود موجودہ مینیجنگ ڈائریکٹر ارشد خان کی تعیناتی پر ان کے شدید اختلافات سامنے آ چکے ہیں۔ فواد چوہدری نے بھی عوامی سطح پر پی ٹی وی کی انتظامیہ کے خلاف بیانات دیے، لیکن نعیم الحق صاحب آج تک ڈٹے ہوئے اور ارشد خان کو ان کی آشیرباد حاصل ہے۔
تازہ بیانات کی جھڑپ میں فواد چوہدری نے ارشد خان پر بااثر افراد سے تعلق کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کرنے کا الزام عائد کیا، جس کے جواب میں ایم ڈی نے کہا کہ وہ فواد چوہدری کی خواہش پر اپنی ذمہ داری نہیں چھوڑیں گے۔
3۔ بزدار-علیم کی بزم
اس سال جنوری میں پنجاب کے سابق سینیئر وزیر علیم خان کو گرفتاری سے پہلے ایک انٹرویو میں یہ تاثر دور کرنے کی ضرورت پیش آئی کہ ان کے وزیراعلی عثمان بزدار کے ساتھ بہت اچھے تعلقات ہیں اور اصل وزیراعلیٰ عثمان بزدار ہی ہیں نہ کہ وہ۔ ستم ظریفی یہ ہوئی کہ وہ نیب کے ہتھے چڑھ گئے ورنہ صوبہ کون چلا رہا ہے اور جنوبی پنجاب میں کس کی چلے گی، اس مسئلے پر اختلافات مزید سنگین صورت اختیار کر لیتے۔
سینیئر صحافی نوید چوہدری نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے جہانگیر ترین اور گورنر چوہدری سرور گروپ کے علیم خان گروپ سے اختلافات تو تھے ہی لیکن انتخابات کے بعد وزیراعلیٰ عثمان بزدار، وفاقی وزیر خسرو بختیار اور طاہر بشیر چیمہ پر مشتمل جنوبی پنجاب گروپ نے بھی جنم لے لیا۔ سیف اللہ نیازی، ارشد داد، عمر چیمہ اور اعجاز چوہدری پر مشتمل پارٹی کے پرانے رہنماؤں نے پارٹی عہدے لے کر الگ گروپ بنا لیا، اسی طرح مسلم لیگ (ق) چھوڑ کر آنے والے صوبائی وزرا راجہ بشارت، چوہدری الدین کی وفاداریاں بھی اپنی سابق قیادت یعنی چوہدری برادران کے ساتھ ہیں اور وہ الگ گروپ چلا رہے ہیں۔
4۔ محمود-عاطف خاموش جنگ؟
خیبر پختونخوا کے وزیر سیاحت عاطف خان اور موجودہ وزیراعلیٰ محمود خان کے درمیان چپقلش اُس وقت سے جاری ہے جب 2018 کے عام انتخابات کے بعد محمود خان کا نام صوبے کے وزیراعلیٰ کے طور پر سامنے آیا تھا۔
کہا جاتا ہے کہ خیبر پختونخوا کے سابق وزیراعلیٰ پرویز خٹک کا ایک الگ گروپ ہے جبکہ عاطف خان اور موجودہ وزیر بلدیات شہرام ترکی کا الگ گروپ ہے اور ان کے درمیان خاصے عرصے سے اختلافات موجود ہیں۔
پرویز خٹک نے جب وزیراعلیٰ کے لیے محمود خان اور شاہ فرمان کا نام تجویز کیا تو عاطف خان اور ان کے گروپ نے اس فیصلے کو ماننے سے انکار کر دیا تھا۔
اس حوالے سے اگست 2018 میں بنی گالہ میں ایک میٹنگ کے دوران عاطف خان اور پرویز خٹک کے درمیان سخت جملوں کا تبادلہ بھی ہوا تھا۔
کہا جاتا تھا کہ بطور وزیراعلیٰ عمران کے پسندیدہ امیدوار عاطف خان تھے، جبکہ پرویز خٹک عاطف خان کو وزیراعلیٰ کے طور پر نہیں دیکھنا چاہتے تھے۔ عاطف خان نے اپنے آپ کو وزیراعلیٰ بنانے کے لیے میڈیا کا استعمال بھی کیا تھا۔
پشاور کے ایک صحافی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ عاطف خان ان سے رابطہ کرکے بتاتے تھے کہ عمران خان انہیں وزیراعلیٰ بنانا چاہتے ہیں اور پھر انہی خبروں کو میڈیا پر چلایا جاتا تھا تاکہ وہ عوام کا اعتماد حاصل کر سکیں۔
اس سے پہلے بھی جب پرویز خٹک وزیراعلیٰ تھے تو بہت عرصے تک عاطف خان اور شہرام ترکئی سمیت ان کے گروپ کے ممبران صوبائی اسمبلی اور کابینہ کے اجلاس میں شرکت نہیں کرتے تھے۔
شہرت کے ساتھ بڑھتی دھڑے بندیاں
سینیئر سیاستدان اور پی ٹی آئی کے سابق صدر مخدوم جاوید ہاشمی نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں سیاسی جماعتوں میں ہم خیال گروپ ضرور ہوتے ہیں لیکن حکمران جماعت پی ٹی آئی 2013 کے انتخابات کے بعد جیسے جیسے شہرت حاصل کرتی گئی اس میں دھڑے بندیاں بھی بڑھتی گئیں۔ اس میں مختلف سیاسی جماعتیں چھوڑ کر آنے والے سیاست دانوں نے اپنے ہم خیال گروپ ہی نہیں بنائے بلکہ انٹرا پارٹی انتخابات کے موقع پر عہدوں کے لیے وہ ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالتے بھی نظر آئے۔
سیاسی پنڈتوں کو لگتا ہے کہ جب عمران خان کا ہراول دستہ ان کی خواہش کے مطابق کام نہیں کرتا تو وہ خود جان بوجھ کر دوسری صف میں کھڑے رہنماؤں کو شہ دیتے ہیں۔
پی ٹی آئی کے بانی رکن اکبر ایس بابر نے انڈپینڈٹ اردو کو بتایا کہ پارٹی قیادت خود جماعت میں تقسیم چاہتی ہے اور پیسہ خرچ کرنے والوں کو پارٹی فیصلوں میں بھر پور اہمیت دی جاتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ انصاف کے نظریے پر 22 سال پہلے بننے والی جماعت پر سٹیٹس کو کا قبضہ ہو چکا ہے۔ اب حکومت میں آکر ہر ایک رہنما خدمت کی بجائے اقتدار پر قبضہ چاہتا ہے اور وزرا کارکردگی پر توجہ دینے کی بجائے اپنے گروپوں کے لیے کام کرتے دکھائی دیتے ہیں۔