کشمیر: بی جے پی ارکان گھر بار چھوڑنے پر کیوں مجبور؟

گھر بار چھوڑ کر سرکاری عمارتوں، قرنطینہ مراکز اور پولیس تھانوں میں پناہ لینے والے بی جے پی رہنماؤں اور کارکنوں کا الزام ہے کہ انہیں صحیح کھانا اور رہائشی سہولیات فراہم نہیں کی جا رہی ہیں۔

بھارتیہ جنتا پارٹی کی مہیلا مورچا ونگ کی جموں و  کشمیر کی نائب صدر رومیسا  وانی آرٹیکل 370 کے خاتمے کو ایک سال مکمل ہونے پر   ضلع اننت ناگ کے لال چوک پر بھارتی پرچم لہرا رہی ہیں  (تصویر: ظہور حسین)

بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں مشتبہ عسکریت پسندوں کی جانب سے ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے رہنماؤں اور کارکنوں پر حملوں میں اچانک تیزی آئی ہے جس کے نتیجے میں یہ لوگ اپنے گھر بار چھوڑ کر پولیس تھانوں، ہائی سکیورٹی والی سرکاری عمارتوں یہاں تک کہ کرونا (کورونا) وائرس کے پیش نظر قائم قرنطینہ مراکز میں پناہ لینے پر مجبور ہوگئے ہیں۔

محض چھ دنوں کے اندر مشتبہ عسکریت پسندوں کی جانب سے جنوبی اور وسطی کشمیر میں تین بی جے پی کارکنوں پر فائرنگ کی گئی، جس کے نتیجے میں ایک کارکن ہلاک جبکہ دیگر دو دارالحکومت سری نگر میں قائم سرکاری ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔

اسی عرصے کے دوران بی جے پی سے وابستہ کم از کم 15 پنچوں، سرپنچوں اور کارکنوں نے اس جماعت سے الگ ہوجانے کا اعلان کرتے ہوئے کشمیری عوام اور حملوں کی نئی لہر شروع کرنے والے مشتبہ عسکریت پسندوں سے معافی مانگی ہے۔

وسطی کشمیر کے قصبہ بڈگام میں اتوار کی صبح عبدالحمید نجار نامی بی جے پی کارکن حسب معمول مارننگ واک پر نکلے تھے کہ مشتبہ عسکریت پسندوں نے ان پر نزدیک سے گولی چلائی۔ انہیں ہسپتال لے جایا گیا، جہاں ان کی حالت تشویش ناک بتائی جاتی ہے۔

چھ اگست کو مشتبہ عسکریت پسندوں نے جنوبی کشمیر کے ضلع کولگام میں بی جے پی سرپنچ سجاد احمد کھانڈے کو گولی مار کر ہلاک کردیا جبکہ اس سے قبل چار اگست کو اسی ضلع میں ایک ایسے ہی حملے میں بی جے پی پنچ عارف احمد شدید زخمی ہوئے۔

حملوں میں اچانک اضافہ کیوں؟

کشمیر میں بی جے پی کے رہنماؤں اور کارکنوں پر مشتبہ عسکریت پسندوں کے حملوں میں اچانک تیزی کو اس ہندو قوم پرست جماعت کے کچھ مقامی رہنماؤں کے مبینہ اشتعال انگیز بیانات کا نتیجہ قرار دیا جارہا ہے۔

پانچ اگست کو بی جے پی نے کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کے خاتمے کی برسی کا جشن منانے کے لیے سری نگر میں ایک تقریب منعقد کی، جس کے دوران پارٹی کے ترجمان الطاف ٹھاکر نے عسکریت پسندوں اور علیحدگی پسندوں کے خلاف ایک بیان دیا۔

ان کا کہنا تھا: 'ہم آج اس لیے خوشی منا رہے ہیں کیونکہ عسکریت پسندی کا خاتمہ ہو رہا ہے اور علیحدگی پسند استعفیٰ دے رہے ہیں۔'

حملوں میں اچانک تیزی کو شمالی کشمیر کے ضلع کپواڑہ سے تعلق رکھنے والے بی جے پی رہنما جاوید قریشی کے حالیہ بیانات سے بھی جوڑا جارہا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مذکورہ بی جے پی رہنما نے گذشتہ دنوں کرونا وائرس میں مبتلا بھارت کے وزیر داخلہ امت شاہ اور پارٹی کے مقامی صدر رویندر رینہ کی صحت یابی کے لیے اپنے ویڈیو پیغام میں روزے رکھنے کا اعلان کیا تھا۔

روزے رکھنے کے اعلان کی وجہ سے جاوید قریشی کو سوشل میڈیا پر سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا کیونکہ بی جے پی کے ان دونوں بڑے رہنماؤں کو کشمیر مخالف تصور کیا جاتا ہے۔

اگرچہ کشمیر میں بی جے پی یا بھارت نواز سیاسی جماعتوں کے کارکنوں پر عسکریت پسند تنظیموں کے حملے کوئی نئی بات نہیں ہے تاہم ان میں اچانک تیزی اور ایک مخصوص جماعت کے کارکنوں کو نشانہ بنانے کی کارروائیوں نے یہاں سکیورٹی اداروں کے لیے مشکل صورت حال پیدا کر دی ہے۔

رواں برس 8 جولائی کو عسکریت پسندوں نے شمالی کشمیر کے قصبہ بانڈی پورہ میں بی جے پی کے ضلع صدر شیخ وسیم باری، ان کے والد بشیر احمد اور بھائی عمر بشیر پر گولیاں برسائی تھیں، جس کے نتیجے میں تینوں ہلاک ہوگئے تھے۔

کشمیر میں سرگرم عسکریت پسند تنظیموں نے بی جے پی کارکنوں پر تازہ حملوں کی اب تک ذمہ داری قبول کی ہے اور نہ ہی ان کو انجام دینے سے انکاری ہیں۔

بی جے پی کارکنوں کو سکیورٹی کی فراہمی

کشمیر میں بی جے پی کے جنرل سیکرٹری (آرگنائزیشنز) اشوک کول نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ انہوں نے اپنے رہنماؤں اور کارکنوں کی سکیورٹی اور محفوظ جگہوں پر رہائشی سہولیات کی فراہمی کا معاملہ پارٹی کے قومی صدر جگت پرکاش نڈا کے سامنے اٹھایا ہے۔

انہوں نے بتایا: 'میں نے نڈا جی سے ٹیلی فون پر بات کی ہے اور ان سے کہا ہے کہ کشمیر میں ہماری پارٹی کے رہنماؤں اور کارکنوں کی جانوں کو خطرہ ہے، لہٰذا ان کی سکیورٹی اور ضلعی صدر مقامات پر رہائشی سہولیات کا انتظام کیا جائے۔'

بی جے پی رہنما اور کارکنوں کو مشتبہ عسکریت پسندوں کی جانب سے نشانہ بنائے جانے کے سوال پر اشوک کول کا کہنا تھا: 'ان کو آج کل کچھ نہیں مل رہا ہے اس لیے وہ بی جے پی والوں کے پیچھے پڑ گئے ہیں۔ وہ یہاں ڈر و خوف پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ اچھی طاقتیں یہاں کام نہ کریں اور کشمیر بے ایمانوں کا اڈہ بنے۔'

دوسری جانب کشمیر میں بی جے پی کے صدر رویندر رینہ کا کہنا ہے کہ ہماری سکیورٹی فورسز جس طرح سے عسکریت پسندوں کا صفایا کر رہی ہیں، اس کی وجہ سے یہ بوکھلاہٹ کا شکار ہیں اور نتیجتاً وہ یہ کارروائیاں کر رہے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا: 'ہم پورے کشمیر کو عسکریت پسندوں سے آزاد کریں گے۔ کشمیر میں ہر گھر میں ترنگا ہوگا۔'

دوسری جانب گھر بار چھوڑ کر سرکاری عمارتوں، قرنطینہ مراکز اور پولیس تھانوں میں پناہ لینے والے بی جے پی رہنماؤںاور کارکنوں کا الزام ہے کہ انہیں صحیح کھانا اور رہائشی سہولیات فراہم نہیں کی جا رہی ہیں۔ ان میں سے بعض نے پارٹی سے استعفیٰ دینے کی دھمکی بھی دی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا