ایک کیس جس کے 'ثبوت' اکٹھے کرنے میں نیب کو 18 سال لگے

نیب کو 'بدعنوانی کے ثبوت' جمع کرنے میں 18 سال لگے جس کے بعد سابق پاکستانی سفیر میجر جنرل (ر) سید مصطفیٰ انور حسین کے خلاف ریفرنس دائر کیا گیا۔

میجر جنرل (ر) سید مصطفیٰ انور حسین نے مبینہ طور پر قومی خزانے کو 1.32 ملین ڈالرز کا نقصان پہنچایا: نیب

قومی احتساب بیورو (نیب) نے انڈونیشیا کے دارالحکومت جکارتہ میں پاکستانی سفارت خانے کی عمارت غیر قانونی طور پر فروخت کرنے کے الزام میں دفتر خارجہ کے چند حکام سمیت 2001 سے 2002 تک سفیر رہنے والے میجر جنرل (ر) سید مصطفیٰ انور حسین کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کی منظوری دے دی ہے۔

نیب کے اعلامیے کے مطابق میجر جنرل (ر) سید مصطفیٰ انور حسین نے قومی خزانے کو مبینہ طور پر 1.32 ملین ڈالر کا نقصان پہنچایا ہے۔ ایک سینیئر سابق سفارت کار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ میجر جنرل (ر) سید مصطفی انور حسین نے مبینہ طور پر جکارتہ میں موجود حکومت پاکستان کی عمارت صرف 3.19 ملین ڈالرز میں فروخت کی اور عمارت کی فروخت میں قوانین کو بھی مدنظر نہیں رکھا گیا۔

انہوں نے مزید بتایا کہ 2002 میں چانسری کے ڈپٹی ہیڈ آف مشن سید مشتاق حیدر رضوی نے یہ معاملہ میڈیا تک پہنچایا تو انہیں او ایس ڈی کرکے پاکستان واپس بھجوا دیا گیا۔ جکارتہ میں چانسری کی عمارت کی فروخت میں دفتر خارجہ کے حکام کو بھی نظر انداز کیا گیا اور دفتر خارجہ کی اجازت کے بغیر سفیر نے اپنے تیئں ہی عمارت فروخت کر دی اور ڈیل سے ذاتی فائدہ اٹھایا۔

واضح رہے کہ چانسری کی عمارت اس وقت کے انڈونیشیا کے صدر سوئیکارنو کی جانب سے حکومت پاکستان کو تحفے میں دی گئی تھی۔

معاملہ میڈیا پر آنے کے بعد اس وقت ملک کے سربراہ جنرل (ر) پرویز مشرف نے انکوائری کمیٹی تشکیل دی، جس نے اپنی تحقیقات میں بتایا کہ جکارتہ میں سفارت خانے کی عمارت اور رہائش گاہ بغیر کسی پبلک اشتہار کے فروخت کی گئی، لیکن سفیر کے خلاف کارروائی نہیں کی گئی بلکہ معاملہ میڈیا پر لانے والے دفتر خارجہ کے افسر کو او ایس ڈی کردیا گیا اور انہیں دوبارہ کسی پوسٹ پر تعینات بھی نہیں کیا گیا، جو بعدازاں ہارٹ اٹیک کے باعث 2010 میں انتقال کرگئے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 2011 میں پاکستان پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں یہ معاملہ پبلک اکاؤنٹ کمیٹی میں اٹھایا گیا اور نئی کمیٹی دفتر خارجہ کے سینیئر افسر ڈی جی ایاز حسین کی سربراہی میں بنائی گئی، جنہوں نے سفارت خانے کی عمارت کی فروخت میں بدعنوانی کی تصدیق کی۔

اس ضمن میں لاہور ہائی کورٹ میں ایک شہری ڈاکٹر قیصر کی جانب سے درخواست بھی دائر کی گئی جس میں عدالت سے استدعا کی گئی تھی کہ جکارتہ میں پاکستانی سفیر میجر جنرل (ر) مصطفیٰ انور حسین نے سفارت خانے کی عمارت اپنی انڈونیشین اہلیہ کی کمپنی کے ذریعے فروخت کرکے ذاتی فائدہ اٹھایا اور ملک کو نقصان پہنچایا گیا، اس لیے عدالت نیب کو ملوث افراد کے خلاف کارروائی کرنے کا حکم دے۔

2016 میں مسلم لیگ ن کے دور حکومت میں یہ معاملہ دوبارہ پبلک اکاؤنٹ کمیٹی میں اٹھایا گیا۔ آڈٹ رپورٹ کےمطابق جکارتہ میں اس وقت کے سفیر میجر جنرل (ر) مصطفیٰ انور حسین نے چانسری عمارت کی فروخت کے لیے جس کنسلٹنٹ کی خدمات حاصل کیں، اس کی فیس بھی ادا نہیں کی، جس کے بعد مذکورہ کنسلٹنٹ نے انڈونیشیا کی عدالت میں پاکستانی سفارت خانے کے خلاف اور لاہور ہائی کورٹ میں دفتر خارجہ کے خلاف 4,46000 ڈالرز کے ہرجانے کا دعویٰ بھی دائر کیا۔ دفتر خارجہ حکام کے مطابق یہ کیس ابھی بھی ہائی کورٹ میں زیر التوا ہے۔

نیب کو بدعنوانی کے ثبوت جمع کرنے میں 18 سال لگے جس کے بعد رواں برس 29 جولائی کو اس معاملے پر مذکورہ سفیر کے خلاف ریفرنس دائر کیا گیا۔

کیا ریٹائر فوجی افسر کے خلاف نیب ریفرنس دائر ہوسکتا ہے؟

2013 میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے حکم دیا تھا کہ نیب ریٹائرڈ آرمی افسران کے خلاف کارروائی کر سکتا ہے۔

واضح رہے کہ جنرل (ر) پرویز مشرف نے اپنے دور حکومت میں نیب قوانین میں ترمیم کی تھی جس کے تحت ریٹائرمنٹ کےچھ ماہ بعد فوجی افسران آرمی ایکٹ کے ماتحت نہیں ہوں گے، اس لیے نیب ان کے خلاف کارروائی کر سکتی ہے۔

نیب قوانین پر عبور رکھنے والے سینیئر وکیل راجہ عامر عباس نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ 'کوئی بھی شخص جو کرپشن یا کسی بھی قسم کی مالی بے ضابطگی میں ملوث ہے، چاہے وہ ریٹائرڈ فوجی افسر ہو یا سیاست دان یا پھر کوئی بیوروکریٹ، نیب سب کو نوٹس دینے کا اختیار رکھتا ہے۔'

انہوں نے مزید بتایا کہ 'اس سے قبل بھی این ایل سی بدعنوانی کیس میں سابق فوجی افسران کو سزا سنائی گئی تھی۔ اس کے علاوہ آبدوز کی خریداری میں مالی خرد برد پر ریٹائرڈ ایڈمرل کو امریکہ سے پاکستان لایا گیا تھا۔'

نیب کی جانب سے ریٹائرڈ فوجیوں کے خلاف کتنے ریفرنسز دائر کیے گئے؟

نیب کے پاس کسی فوجی افسر کا یہ پہلا کیس نہیں ہے۔ اس سے قبل 2018 میں نیب نے تین سابق جرنیلوں کے خلاف بھی ریفرنس دائر کرنے کا فیصلہ کیا تھا، جن میں جنرل (ر) جاوید اشرف قاضی، لیفٹینٹ جنرل (ر) سعید ظفر اور میجر جنرل (ر) حسن بٹ شامل تھے۔

ان جرنیلوں پر الزام تھا کہ 2001 میں جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور میں ان افسران نے اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے لاہور میں ریلوے کی 140 کنال سے زائد اراضی لاہور کے رائل پام کنٹری کلب کو کم داموں میں فروخت کر دی تھی جبکہ نومبر 2012 میں قومی احتساب بیورو نے ان تین ریٹائرڈ جرنیلوں کو اپنی صفائی پیش کرنے کے لیے بھی طلب کیا تھا۔

2018 میں نیب کے چیئرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال نے تحقیقاتی ٹیم کی تحقیقات کی روشنی میں لیفٹیننٹ جنرل (ر) افضل جنجوعہ اور بریگیڈیئر (ر) افتخار مہدی کے خلاف تحقیقات کی منظوری دی جبکہ 2018 میں ہی احتساب عدالت نے ایون فیلڈ ریفرنس میں کیپٹن (ر) صفدر کو ایک سال قید کی سزا کا حکم سنایا تھا۔

جبکہ گذشتہ برس مارچ میں  قومی احتساب بیورو کے ایگزیکٹو بورڈ اجلاس میں بریگیڈیئر (ر) اسد منیر کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کی منظوری دی گئی، جن پر بطور ممبر سٹیٹ کیپیٹل ڈیولپمنٹ اختیارات کا ناجائز استعمال کرتےہوئے ایف 11 میں پلاٹ بحال کرنے کا الزام لگایا گیا تھا، جس کے بعد انہوں نے خودکشی کر لی تھی۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان