چینی تنازع اور کرونا صورتحال کے باوجود مودی اب تک کیوں مقبول ہیں؟

انڈیا ٹوڈے اور مارکیٹنگ ریسرچ کی تنظیم کاروی انسائٹس کی جانب سے  جاری کی گئی 'موڈ آف دی نیشن2020' رپورٹ کے مطابق جب لوگوں سے یہ پوچھا گیا کہ وہ نریندر مودی کی کارکردگی کو کیسے ریٹ کرتے ہیں تو جوابات کیا ملے، جانیے خصوصی رپورٹ میں۔

(اے ایف پی)

گزشتہ کچھ دنوں میں دو الگ الگ اداروں کی طرف سے شائع ہونے والے سروے رپورٹس کے مطابق بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی اب بھی ملک کے مقبول ترین سیاسی رہنما ہیں اور عوام  کی اکثریت ان کے کارکردگی سے نہ صرف مطمئن بلکہ خوش ہے۔

مشہور میڈیا گروپ انڈیا ٹوڈے اور مارکیٹنگ ریسرچ کی تنظیم کاروی انسائٹس کی جانب سے  جاری کی گئی 'موڈ آف دی نیشن2020' رپورٹ کے مطابق جب لوگوں سے یہ پوچھا گیا کہ وہ نریندر مودی کی کارکردگی کو کیسے ریٹ کرتے ہیں تو78فیصدلوگوں نے ان کی کارکردگی کوشاندار یا اچھا بتایا۔ایسا کہنے والوں میں سے 30فیصد لوگوں نے  شاندار کہا جبکہ48فیصد لوگوں نے اسے  اچھا قرار دیا۔وہیں دوسری جانب صرف پانچ فیصدجواب دہندگان نے ان کی کارکردگی کو خراب بتایا۔

واضح ہو کہ اس سروے کے لیے 12021افراد کا انٹرویو کیا گیا تھا، جن میں 67فیصد کا تعلق دیہی علاقوں سے اور 33 فیصد کا شہری علاقوں سے بتایا جاتا ہے۔

انڈیا ٹوڈے کے مطابق ان افراد کا تعلق ملک کے 97پارلیمانی اور 194اسمبلی حلقوں سے تھا، جو کہ 19ریاستوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔ سال میں دو بار کیا جانے والا یہ  سروے  خاصی اہمیت کا حامل سمجھا جاتا ہے۔

'آئے گا تو مودی ہی'

اسی سروے میں پوچھے گئے سوال 'اگر آج عام انتخابات /لوک سبھا انتخابات ہوتے ہیں تو آپ کس پارٹی کو ووٹ کرنا پسند کریں گے؟' کے جواب میں زیادہ تر جواب دہندگان نے نریندر مودی کی پارٹی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی)  اور حزب اختلاف کی جماعت کانگریس کے بجائے دیگر پارٹیوں کا نام لیا۔

اس سوال کے جواب میں بی جے پی کے حق میں36 فیصد اور کانگریس کے 19فیصد، وہیں دیگر پارٹیوں کے حق میں 45فیصد جواب دہندگان نے اپنی رائے دی۔

 تاہم یہ بات بھی اہم ہے کہ جب اسے سیٹوں کے حساب سے دیکھا گیا تو تو بی جے پی کو سب سے زیادہ283، دیگر سیاسی جماعتوں کو 211 اور کانگریس کو صرف 49 سیٹیں ملتی ہیں ۔

یاد رہے کہ بھارت کے ایوان زیریں  یعنی لوک سبھا (جس کے لیے عام انتخابات ہوتے ہیں ) میں کل 543  نشستیں ہیں اور حکومت سازی کے لیے272 سیٹیں درکار ہوتی ہیں۔

بالفاظ دیگر اس سروے کے مطابق مجموعی طور پر دیگر سیاسی جماعتوں کا ووٹنگ فیصد بھلے ہی زیادہ ہو، لیکن جہاں تک حکومت سازی کی بات ہے آئندہ عام انتخابات میں بھی 'آئے گا تو مودی ہی۔'

واضح رہے کہ گزشتہ انتخابات میں بی جے پی کا  یہ نعرہ بہت مقبول ہوا تھا۔

مصیبتیں برداشت کرنے کے باوجود حکومتی اقدامات سے مطمئن

ایک دوسرے سروے کے مطابق ملک کے دیہی علاقوں میں رہنے والے عوام کی اکثریت نے کورونا وائرس سے لڑنے کے لیے مرکزی اور ریاستی حکومتوں کی طرف سے اٹھائے گئے اقدامات پر اطمینان کا اظہار کیا ہے۔

اس سروے میں کہا گیا ہے کہ باوجود اس کے دیہی عوام کو لاک ڈاؤن کے درمیان مصیبت کا سامنا کرنا پڑا (جیسے کچھ کو اپنی زمین، فون، گھڑی وغیرہ بیچنی پڑی، پڑوسیوں سے قرض لینا پڑا) 74 فیصد جواب دہندگان کا کہنا تھا کہ وہ حکومتی اقدامات سے مطمئن ہیں۔

جہاں 37 فیصد جواب دہندگان کا کہنا تھا کہ وہ حکومتی اقدامات سے بہت مطمئن ہیں، وہیں 37 فیصدکا کہنا تھا ہے وہ مرکز کے اقدامات سے 'کچھ حد تک مطمئن' ہیں۔

اس سروے میں شامل صرف سات فیصد لوگوں نے کہا کہ وہ حکومت کے اقدامات سے 'بہت ہی زیادہ غیر مطمئن' ہیں۔

یہ سروے بھارت کے مشہور ریسرچ انسٹیٹیوٹ سینٹر فار سٹڈی آف ڈیویلپنگ سوسائٹیز (سی ایس ڈی ایس) نے ڈیزائن کیا تھا، جس کی بنیاد پر گاؤں کنیکشن نامی ایک میڈیا ہاؤس نے سروے کیا۔

تاہم اعداد و شمار کے تجزیہ کا کام بھی سی ایس ڈی ایس نے ہی انجام دیا۔اس سروے کے لیے کل 25371 افراد کا کا انٹرویو کیا گیا تھا، جن کا تعلق ملک کی 20ریاستوں اور تین یونین ٹیریٹریز کے 179اضلاع سے بتایا گیا  ہے۔

کیا ہے مودی کی مقبولیت کی وجہ؟

ماہرین کی رائے میں یہ کوئی چونکانے والے نتائج نہیں ہیں۔ ایک لمبے عرصے سے مختلف اداروں کے لیے سروے کرنے والے ریسرچر اور سیاسی تجزیہ کار آشیش رنجن نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ 'اگرآپ خود بھی ملک کے مختلف علاقوں کا دورہ کریں اور لوگوں سے پوچھیں کہ کیاوبا پر قابو پانے کے لیے  وزیراعظم مودی نے جو کیا ہے اس سے آپ مطمئن ہیں تو آپ کو زیادہ تر لوگ یہی کہیں گے کہ وبا ہی ایسی ہے کہ اس میں کوئی کیا کر سکتا ہے۔

انہوں نے حالیہ دنوں میں لوگوں کے ساتھ ہوئی اپنی بات چیت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 'عوام پریشان ضرور ہیں لیکن انہیں لگتا ہے یایہ باور کرایا گیا ہے کہ حکومت اپنی طرف سے حتی الامکان کوشش کر رہی ہے۔'

وہ مزید کہتے ہیں 'اصل میں اس طرح کی پروپیگنڈا مشینری کام کر رہی ہے کہ لوگوں کو کہیں نہ کہیں لگنے لگا ہے کہ اگر مودی کی حکومت نہ ہوتی تو ملک برباد ہو گیا ہوتا۔ ' 

قابل ذکر بات یہ ہے کہ گزشتہ دنوں وزیراعظم مودی نے اپنے ایک خطاب میں کہا تھا کہ آپ تصور کیجیے کہ اگر کورونا جیسی وبا 2014سے قبل پیدا ہوتی تو ملک کا کیا حال ہوتا۔

یاد رہے کہ نریندر مودی 2014میں پہلی بار وزیراعظم منتخب ہوئے تھے۔ تادم تحریر ملک میں کورونا وائرس سے متاثر لوگوں کی تعداد 239633جبکہ اس سے مرنے والوں کی تعداد47 ہزار سے تجاوز کر گئی۔

معروف ماہر سماجیات اور جی پنت سوشل سائنس انسٹیٹیوٹ، پریاگ راج ( حال تک الٰہ آباد  ) کے ڈائریکٹر پروفیسر بدری نارائن تیاری کے مطابق مودی کی مقبولیت خود ان کی شخصیت ہے۔

انہوں نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ 'مودی جس طرح سے عوام سے کنیکٹ کرتے ہیں وہ ان کی  مقبولیت کی  ایک خاص وجہ ہے۔ اس وقت ملک میں کوئی اور دوسرا سیاسی رہنما نہیں ہے جو  مودی کی طرح عوام کے ساتھ رابطہ کر سکے، یہی وجہ ہے کی ان کی مقبولیت برقرار ہے۔'

 ہندوتوا کی سیاست کا اثر

دونوں ماہرین کا خیال ہے کہ بی جے پی اور مودی کی ہندوتوادی سیاست نے اس مقبولیت کو مستحکم کرنے  میں اہم رول ادا کیا ہے۔

پروفیسربدری  نارائن کہتے ہیں کہ 'ہندوتوا  اس ملک کے کامن سینس کا حصہ بن چکا ہے اور اس نے بہت ساری حدوں کو توڑ دیا ہے' ان کا مزید کہنا تھا کہ 'کوئی بھی ایسی چیز جو ہندوتوا امیجری سے جڑی ہو وہ اس سیاست کو اور مضبوط بنا دیتی ہے ، جس کا  بی جے پی جیسی ہندو پرست پارٹی کو راست فائدہ پہنچاتا ہے۔اور اس سیاست نے متبادل سیاست کو حاشیہ پر ڈھکیل دیا ہے۔'

اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ انڈیا ٹوڈے کے سروے میں ایک سوال 'مودی حکومت کی سب سے بڑی کامیابی کیا رہی ہے؟' کے جواب میں سب سے زیادہ لوگوں نے کہا ہے، کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ۔ اس کے بعد جواب دہندگان نے بابری مسجد - رام مندر تنازع معاملے میں سپریم کورٹ کے اُس فیصلے کو سب سے بڑی کامیابی بتایا ہے جس کے بعد ایودھیا میں مندر کی تعمیر کا راستہ صاف ہو گیا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دلچسپ بات یہ ہے کہ جب ان سے یہ پوچھا گیا کہ سب سے بڑی ناکامی کیا رہی ہے تو سب سے زیادہ جواب دہندگان نے وبا کی صورت حال سے نمٹنا بتایا جبکہ دوسرے نمبر پر بے روزگاری کا ذکر  ملتا ہے۔ تاہم ایک دوسرے سوال کے جواب میں 29فیصد لوگوں نے وزیراعظم کے وبا سے نمٹنے کے طریقے کو شاندار اور 48 فیصد لوگوں نے اچھا بتایا۔

چین، نیپال اور پاکستان کے ساتھ تنازع کو صحیح سے نہ نمٹنے کو صرف ایک فیصد لوگوں نے مودی حکومت کی ناکامی قرار دیا ہے۔

اسی سروے میں لوگوں نے چین کو بھارت کا دشمن نمبر ون قرار دیا ہے اور84 فیصد جواب دہندگان کا کہنا ہے کہ چین پر یقین نہیں کرنا چاہیے کیونکہ چینی صدر نے مودی کے ساتھ دغابازی کی ہے۔

اس سوال کے جواب میں کہ کیا بھارت کو چین کے ساتھ جنگ لڑنی چاہیے، 59 فیصد لوگوں کا جواب ہاں ہے۔ دریں اثنا 90 فیصد جواب دہندگان چینی اشیا کی بائیکاٹ کے حق میں ہیں۔

 سروے  رپورٹوں پر کتنا  یقین کیا جا سکتا ہے؟ 

یہ پوچھے جانے پر کہ ان سرویز پر کتنا یقین کیا جا سکتا ہے؟ دونوں ماہرین کا کہنا تھا کہ آپ سروے کے کسی پوائنٹ یا نتیجے پر بحث کر سکتے ہیں لیکن پورے سروے کو غلط ماننا یاپھر اس کے نتائج سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے۔ پروفیسر بدری نارائن تیواری کہتے ہیں کہ اگر ہم ان سرویز کو مسترد بھی کرنا چاہیں تو کس بنیاد پر کریں گے؟ کیا ہمارے پاس اس کے بر عکس کوئی اعداد و شمار ہیں جن کی بنیاد پر کہہ سکیں کہ یہ نتائج درست نہیں ہیں۔

آشیش رنجن کا بھی ماننا ہے کہ جب تک ہمارے پاس کوئی ٹھوس بنیاد نہ ہو ان نتائج کو مسترد کرنا مناسب نہیں ہوگا۔ ساتھ ہی وہ یہ بھی دہراتے ہیں کہ میں نے خود جن لوگوں سے بات کی ہے وہ پریشان ضرور ہیں لیکن ان کا یہ بھی ماننا ہے کہ مودی اپنی طرف سے پوری کوشش کر رہے ہیں۔ آشیش رنجن کا مزید کہنا ہے کہ کیونکہ مودی کی شبیہ ایک سخت گیر اور فیصلہ کن رہنما کی بن چکی ہے، اس کی وجہ سے ان کی مقبولیت اور مستحکم ہو ئی ہے۔  ماہرین کا یہ بھی ماننا ہے کہ کسی متبادل لیڈر کے فقدان نے مودی کو اور بھی مقبول بنا دیا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ