کیا عمران خان اپنی مدت پوری کرنے والے پہلے وزیرِ اعظم بن سکتے ہیں؟

آج سے ٹھیک دو سال قبل عمران خان نے وزارتِ عظمیٰ کا حلف اٹھایا تھا۔ پاکستانی تاریخ کیا کہتی ہے کہ آیا وہ اپنی مدت پوری کر پائیں گے یا نہیں؟

(روئٹرز)

 ملک کے 30 ویں وزیراعظم عمران خان کو یہ عہدہ سنبھالے آج بمشکل دو سال پورے ہوئے ہیں لیکن اس سے بہت پہلے ہی مائنس ون کی بحث شروع ہو چکی ہے۔
کیاعمران خان بطور وزیر اعظم اپنی آئینی مدت پوری کر پائیں گے، اس کے بارے میں ابھی حتمی طور پر کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا۔ تاہم تاریخ اس سوال کا جواب نفی میں دیتی ہے۔
ہمارے خیال میں اگر عمران خان اپنی آئینی مدت پوری کر پاتے ہیں (اور خدا کرے کہ ایسا ہی ہو) تو پاکستانی سیاست میں انھیں ایک ’صاحب کرامت سیاست دان‘ کے طورپر ہمیشہ یاد رکھا جائے گا کہ ان سے پہلے ان کے کسی بھی پیش رو نےآج تک اپنی آئینی مدت پوری نہیں کی۔

ان میں سے بہت سے ایسے تھے جو عمران خان صاحب سے کہیں زیادہ مضبوط، طاقت ور اور مقبول تھے۔ یہ وہ تاریخی حقیقت ہے جس سے ہمارا کوئی بھی سیاست دان عبرت تو کیا سبق بھی سیکھنے کو تیار نہیں۔
یہ بات ہمارے سیاسی ریکارڈ کا حصہ ہے کہ آج تک جس وزیر اعظم نے کسی ایک ہی آئینی مدت میں سب سے زیادہ دن اس عہدے پر گزارے، وہ ملک کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان تھے۔ لیاقت علی خان نے پاکستان کے پہلے وزیر اعظم کے طور پر 15 اگست 1947 کواپنے عہدے کا حلف اٹھایا اور 16 اکتوبر 1951 کو لیاقت باغ میں سید اکبر نامی شخص کی گولی کا نشانہ بنے تک اس عہدے پر فائز رہے۔

یوں ان کے اس عہدے پر رہنے کی مدت 1524دن یعنی چار سال، دو ماہ اور ایک دن بنتی ہے۔ اس کے بعد کوئی بھی وزیر اعظم اپنے اس پیش رو کا ریکارڈ نہ توڑ سکا، جیسے کسی المیے ہی سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔
لیاقت علی خان کے بعد میاں محمد نواز شریف دوسرے خوش نصیب شخص ہیں جو کسی ایک ہی آئینی مدت میں سب سے زیادہ یعنی 1515 دن اس عہدے پر فائز رہے۔ نواز شریف اس حوالے سے بھی زیادہ خوش نصیب ٹھہرے کہ وہ پاکستان کے واحد وزیر اعظم ہیں جو تین بار اس منصب کے لیے منتخب ہوئے۔
چھ نومبر 1990 کو وہ پہلی بار وزیر اعظم بنے۔ 18اپریل 1993 کو صدر غلام اسحٰق خان نے ان کی حکومت پر 58 ٹو بی کے کلھاڑے کا وار کیا جسے انھوں نے سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا۔ 26 مئی 1993کو (یعنی 39 دن بعد) سپریم کورٹ نے انہیں دوبارہ وزیر اعظم کے عہدے پر بحا ل کر دیا لیکن صرف 54 دن بعد 18جولائی 1993کو ایک معاہدے کے تحت انہیں اور صدر دونوں کو استعفیٰ دینا پڑا۔ یوں وہ اپنے پہلے دور حکومت میں895+54=949 دن اس عہدے پر براجمان رہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)


دوسری مرتبہ وہ 17 فروری 1997 کو وزیر اعظم منتخب کیے گئے۔ 12 اکتوبر 1999 کو پرویز مشرف نے ان کی حکومت کا تختہ دھڑن کر کے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ یعنی اس بار انہوں نے 968 دن تک اس عہدے کے مزے لوٹے۔
پانچ جون 2013 کو میاں صاحب تیسری مرتبہ وزیرِ اعظم منتخب کیے گئے لیکن چار سال ایک ماہ اور 23 دن بعد 28جولائی 2017 کو سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سےانھیں نااہل قرار دیا گیا۔

یوں اب کی بار وہ1515( ایک ہزار پانچ سو پندرہ) دن اس عہدے پر فائز رہے۔ اگراب کی بار وہ صرف دس دن مزید اس عہدے پر ٹکے رہتے تو وہ کسی ایک ہی آئینی مدت میں وزیر اعظم کے عہدے پرسب سے زیادہ دن فائز رہنے والے پہلے شخص ہوتے۔
تیسرے نمبر پر آنے والے خوش نصیب پپلز پارٹی کے یوسف رضا گیلانی ہیں۔ اگرچہ25 مارچ 2008 کو بننے والی ان کی حکومت نے پاکستان کی گذشتہ 65 سالہ سیاسی تاریخ میں پہلی بار آئینی مدت پوری کی تھی۔ تاہم وہ خود اتنے خوش نصیب ثابت نہ ہو سکے کہ اپنی آئینی مدت پوری کر سکیں۔

انہیں 26 اپریل 2012 کو توہین عدالت کے ایک مقدمے میں 30 سیکنڈ کی سزا سنائی گئی یوں وہ مجرم قرار پائے۔ اگرچہ وہ عملی طور پر 19جون 2012 تک فائز رہے، لیکن چوں کہ عدالت نے 19 جون 2012 کو مقدمے کے فیصلہ میں لکھا کہ سزا کے بعد گیلانی پارلیمان کی رکنیت سے نااہل ہو چکے ہیں اس لیے اب وہ وزیر اعظم نہیں رہ سکتے۔

الیکشن کمیشن کو عدالت نے ہدایت کی ان کی معزولی کا حکم جاری کرے جو فیصلے کے چندہی گھنٹوں بعد جاری کر دیا گیا کہ گیلانی کو 26 اپریل 2012 سے معزول سمجھا جائے۔ یوں وہ عملی طور پر تو 1548 دن (چار سال دو ماہ اور 25 دن) وزیر اعظم رہے لیکن آئینی طور پر1494دن ( چار سال ایک ماہ اور ایک دن) ہی وزیر اعظم رہے۔

یہاں اس امر کا ذکر دلچسپی سے خالی نہ ہو گا کہ اگر 19جون 2012 کو سپریم کورٹ 26 اپریل کے بجائے اسی دن (یعنی 19جون) سےانہیں معزول کرنے کے احکامات جاری کرتی تو وہ اس حوالے سے پاکستان کے تمام وزرائے اعظم پر سبقت لے جاتے کیوں کہ اس صورت میں ان کی مدت 1548 دن بنتی ہے، جو نہ صرف نواز شریف کے تیسرے دور سے (1515 دن) 33 دن زیادہ بنتی ہے بلکہ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کے 1524 دنوں سے بھی پورے 24 دن زیادہ ہے۔

اس لحاظ سے ہم انھیں بد نصیب بھی قرار دے سکتے ہیں کہ وہ پاکستان کی تاریخ میں عملی طور پر سب سے زیادہ دن اس عہدے پر فائز رہنے کے باوجود آئینی طور پر اس عہدے پر فائز رہنے والوں میں تیسرے نمبر پر ہیں۔
 اس سے بھی حیرت انگیز مماثلت یہ ہے کہ نواز شریف کی پہلی حکومت سپریم کورٹ کی طرف سے بحال ہونے کے بعد صرف 54 دن چلی اوراور تقریباً 19 سال بعد 19جون 2012 کوعدالت نے جب یوسف رضا گیلانی کی 26 اپریل سے معزولی کے احکامات جاری کیے تو ان کے ان 55 دنوں کو منہا کر دیا گیا، جوانہوں نے بطور وزیر اعظم، وزیر اعظم ہاؤس میں گزارے تھے۔
چوتھے نمبر پر آنے والے پاکستان کی تاریخ کے سب سے مقبول وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو ہیں۔ جنھوں نے 1973 کا متفقہ آئین دینے کے بعد صدارت سے استعفیٰ دیا اور 14اگست 1973 کووزارت عظمیٰ سنبھالی۔ 1422 دن بعد (یعنی تین سال، دس ماہ اور 21 دن) پانچ جولائی 1977 کو اس وقت کے فوجی سربراہ جنرل ضیاء الحق نے انہیں کرسی سے اتار ملک میں مارشل لا نافذ کر دیا اور بعد ازاں اس مقبول سیاست دان کو چار اپریل 1979 کو تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔
ذوالفقار علی بھٹو کی صاحبزادی بے نظیر بھٹو ہیں جنہیں پاکستان ہی کی نہیں مسلم دنیاکی بھی پہلی خاتون وزیر اعظم بننے کا اعزاز حاصل ہے اور جن کے وزیر اعظم بننے کے بعد عورت کی حکمرانی کی ’شرعی حیثیت‘ جیسے سوالات نے بھی جنم لیا تھا۔ وہ اس حوالے سے پانچویں نمبر پر آتی ہیں۔ تاہم وہ اس حوالے سے زیادہ خوش نصیب ہیں کہ میاں نواز شریف کے بعد وہ دوسری وزیر اعظم ہیں جو ایک سے زائد مرتبہ پاکستان کے اس عہدے پر فائز ہوئیں۔
پہلی مرتبہ وہ دو دسمبر 1988 کو وزیر اعظم بنیں۔

چھ اگست 1990 کو صدر غلام اسحٰق خان نے اپنے خصوصی اختیارات استعمال کرتے ہوئے ان کی حکومت کا خاتمہ کیا۔ وہ اپنے اس پہلے دور میں 613 دن اس عہدے پر فائز رہیں۔
 19اکتوبر 1993کو وہ دوسری مرتبہ وزیرِ اعظم بنیں۔ پانچ نومبر 1996 کو صدر فاروق لغاری نے خصوصی اختیارات کے تحت انہیں عہدے سے برخاست کر دیا۔ اس بار وہ 1114 دن اس عہدے پر فائز رہیں جو ان کے والد کے دورانیے سے 308دن اور پپلز پارٹی ہی کے یوسف رضا گیلانی کی مدت وزارت عظمیٰ سے 380 دن کم ہے۔
اگر مجموعی طور پر دیکھا جائے تو نواز شریف سب سے زیادہ (تین ادوار میں) 3432 دن اس عہدے پر فائز رہے۔ یہ ریکارڈ فی الحال ٹوٹتا نظر نہیں آتا۔

اس حوالے سے دوسرے نمبر پر بے نظیر بھٹو ہیں، جواپنے دوادوارمیں مجموعی طور پر1727 دن اس عہدے پر فائز رہیں، جو نواز شریف کے اس عہدے پر فائز رہنے کے مجموعی دنوں کا تقریباً نصف ہے۔ اس لحاظ سے پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان تیسرے نمبر پر چلے جاتے ہیں۔ اس کے بعد بالترتیب یوسف رضا گیلانی اور ذوالفقار علی بھٹو کا نمبر آتا ہے۔
عمران خان کا اس فہرست میں کون سے نمبر ہو گا، یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ لیکن ہمارا ماضی اس حوالےسے کچھ زیادہ اچھا نہیں ہے۔ ادھر کچھ وزیروں بالخصوص شیخ رشید اور فواد چوہدری کے بیانات اور وزیر اعظم کی ترید وں سے لگتا ہے کہ اب حکومت کو دواؤں کی نہیں دعاؤں کی ضرورت ہے۔
ہماری دعا ہے کہ عمران خان نہ صرف پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کا کسی ایک ہی آئینی مدت میں اس منصب پر فائز رہنے کا زیادہ سے زیادہ دن کا ریکارڈ توڑیں بلکہ اپنی آئینی مدت پوری کر کے پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک نیا ریکارڈ بھی قائم کریں۔

لیکن نوابزادہ نصراللہ خاں، جنہوں نے پاکستان میں جمہوریت کے لیے سب سے زیادہ کوششیں کیں اور اسی وجہ سے بابائے جمہوریت کہلائے، اپنے وسیع تجربے کی بنیاد پر پہلے ہی فرما گئے ہیں:
کب اشک بہانے سے کٹی ہے شبِ ہجراں
کب کوئی بلا صرف دعاؤں سے ٹلی ہے 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ