مایوس کن سیریز: شکست کے ذمہ دار بلے باز یا بولر؟

مہینوں سے تیاریوں میں مصروف پاکستانی کرکٹ ٹیم کا انگلینڈ میں پہلا مرحلہ سیریز میں شکست کے داغ کے ساتھ اختتام کو پہنچا۔

پاکستانی کھلاڑی شکست کے بعد جیتنے والی ٹیم انگلینڈ کے کھلاڑی جیمز اینڈرسن  کو مبارک باد دیتے ہوئے (تصویر: اے ایف پی)

ساؤتھ ہیمپٹن کے ایجز باؤل گراؤنڈ میں منگل کی شام جب خراب روشنی کے باعث ٹیسٹ میچ جلد ختم کیا گیا تو پاکستانی ٹیم بارش اور بادلوں کی شکر گزار تھی، جس نے ایک یقینی شکست کو ڈرا میں تو بدل دیا لیکن سیریز میں شکست کا داغ نہ دھوسکی۔

پہلے ٹیسٹ میں مانچسٹر میں جیتی ہوئی بازی ہارنے کے بعد ٹیم کا مورال تو کم ہوا لیکن دوسرے اور تیسرے ٹیسٹ میں موسم کی خاموش کمک نے آنسو پوچھنے کے لیے حتی الوسع مدد کردی۔

شکست کے اصل ذمہ دار

دس سال کے بعد ہونے والی اس شکست نے سوال کھڑا کردیا ہے کہ ٹیم کا کون سا شعبہ کمزور تھا، جس نے شکست کے ہار پہنا دیئے۔

اگر  انگلینڈ میں پاکستان کی پچھلی سیریز دیکھی جائیں تو صاف نظر آتا ہے کہ جب بھی پاکستان نے میچ جیتا ہے اپنی بولنگ کے بل بوتے پر  ورنہ بیٹنگ کا حال تو ایسا ہے کہ متعدد بار پاکستانی بیٹنگ تین دن میں دو دو دفعہ آؤٹ ہوئی ہے۔

موجودہ سیریز میں پاکستان کا بولنگ اٹیک کمزور ترین تھا۔ شاہین شاہ آفریدی، نسیم شاہ اور محمد عباس پر مشتمل 'توپ خانے' کا حال یہ ہے کہ تینوں نے مل کر کل 14 وکٹیں حاصل کیں جبکہ انگلینڈ کے سٹیورٹ براڈ نے تنہا 13 اور جمی اینڈرسن نے 11 وکٹیں لیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

محمد عباس پوری سیریز میں 125 کی رفتار سے بولنگ کراتے رہے جس سے ان کو سیم اور پچ کی نمی سے مدد نہیں مل سکی۔ وہ جس رفتار سے بولنگ کرتے ہیں ایسے میں ان کو شاٹ پچ گیندوں کا زیادہ استعمال کرنا چاہیے تھے، جس سے ان کو ایکسٹرا باؤنس مل سکتا تھا لیکن وہ لگے بندھے اصول سے بولنگ کرکے صرف تین وکٹیں لے سکے۔

پاکستان کی طرف سے صرف یاسر شاہ ہی کسی حد تک کامیاب رہے اور انہوں نے 11 وکٹیں لیں لیکن ان کی بولنگ انگلش بلے بازوں کو دباؤ میں نہیں لاسکی۔

پہلے ٹیسٹ میں اگر وہ تیز گیندوں کی بجائے ہوا کا استعمال کرتے تو ممکن ہے کرس ووکس اور بٹلر فریب کھا جاتے۔

بلے بازوں میں اعتماد کی کمی

تینوں ٹیسٹ موسم کے لحاظ سے خاصے متاثر رہے اور بارشوں اور خراب روشنی نے انگلینڈ کی امیدوں پر پانی پھیر دیا، ورنہ تینوں ٹیسٹ میں انگلینڈ کی فتح لازمی تھی۔

ابر آلود موسم میں انگلینڈ نے بولر فرینڈلی پچیں بنائیں، جن پر سیم اور سوئنگ کو کھیلنا بہت مشکل تھا۔ انگلینڈ کیمپ کو یہ اندازہ تھا کہ پاکستانی بلے باز آف سٹمپ سے باہر جاتی ہوئی گیندوں پر بہت کمزور ہیں۔ وہ شاٹ کھیلتے ہوئے اپنا توازن برقرار نہیں رکھتے، اس لیے سارے فاسٹ بولرز ایک مخصوص جگہ پر گیندیں کرتے رہے اور پاکستانی بلے باز آؤٹ ہوتے رہے۔

زیادہ تر بلے بازوں کو کچھ رنز سمیٹنے کی جلدی رہی تاکہ کسی بھی وقت اگر آؤٹ ہوجائیں تو کھاتے میں کچھ رنز ہوں ،یہی وہ غلطی تھی جس نے ہر ایک سے مزید غلطیاں کروائیں۔

اسد شفیق 78 ٹیسٹ کھیلنے کے بعد بھی اس خوف میں مبتلا رہتے ہیں کہ اگر زیادہ دیر رنز کا انتظار کیا تو کہیں صفر پر ہی نہ آؤٹ ہوجاؤں۔ شان مسعود اور عابد علی بھی اسی خوف میں مبتلا رہے۔ اگرچہ شان مسعود ایک سنچری بنانے میں کامیاب ہوگئے لیکن پوری سیریز میں کہیں اعتماد نظر نہیں آیا۔

بابر اعظم کو جس قدر شہرت اور اہمیت اس سیریز میں دی گئی، اس پر ماہرین کرکٹ حیران ہیں۔ بابر کسی بھی موقع پر اپنے ہم عصروں کی طرح ٹیم اننگز نہیں کھیل سکے جبکہ سٹیو سمتھ نے پچھلی ایشز سیریز میں تنہا بیٹنگ کا بوجھ اٹھایا تھا، لیکن بابر زیادہ تر اپنے اعداد وشمار کے لیے کھیلتے رہے۔

اظہر علی پہلے تو جدوجہد کر رہے تھے لیکن پھر انگلینڈ فیلڈرز کی مدد سے بالآخر فارم میں آکر سنچری سکور کرگئے۔

پاکستان ٹیم کہاں بہتر رہی؟

اگر بیٹنگ اور بولنگ کی بجائے فیلڈنگ پر بات کریں تو پاکستان کی سلپ فیلڈنگ انگلینڈ سے معیاری رہی۔ انگلینڈ نے 14 کیچ ڈراپ کیےجبکہ پاکستانی فیلڈرز نے کوئی موقع ضائع نہیں کیا۔

اسد شفیق اب یونس خان کے بعد ایک بہترین کیچر کے روپ میں سامنے آئے ہیں۔

کوچز کی بھرمار

پاکستان سات کوچز کے ساتھ اس سیریز میں انگلینڈ پہنچا تھا۔ وکٹ کیپنگ کے کوچ کے علاوہ ہر شعبے کا کوچ موجود تھا لیکن شومئی قسمت جس کا کوچ نہیں تھا وہی 'مرد سیریز' بن گیا۔

محمد رضوان نے کیپنگ بھی اچھی کی اور بیٹنگ بھی۔ ان کا اعتماد اور بے خوف انداز اگر دس فیصد بھی اسد شفیق کو مل جاتا تو اسد سب سے زیادہ رنز کرسکتے تھے لیکن ان کا سب سے بڑا مسئلہ گھبراہٹ اور بوکھلاہٹ ہے۔

اس طرح کوچز کی کارکردگی دیکھی جائے تو صفر ہی رہی، یعنی نہ کھیل سدھرا اور نہ کھلاڑی!

کپتانی پر تنقید

اظہر علی بحیثیت کپتان شروع دن سے توپوں کی زد میں ہیں اور بھانت بھانت کے ٹی وی اینکرز  زباں وبیاں میں احتیاط کیے بغیر شور مچاتے رہے کہ کپتان نااہل ہے۔ حالانکہ کمزور اور نااہل فوج اگر الیگزینڈر کو بھی دی جاتی تو وہ شاید ایتھنز سے آگے نہ بڑھ پاتا، چہ جائیکہ اظہر علی جو بے جان سی بولنگ کے ساتھ جنگ کر رہے تھے۔

مجموعی طور پر یہ سیریز 1978 کے بعد دوسری سب سے مایوس کن سیریز تھی۔ پاکستان گذشتہ دو سیریز برابر کرچکا ہے لیکن دس سال کے بعد پہلی دفعہ انگلینڈ نے سیریز جیت کر پاکستان کے جیت کے سارے ارمانوں پر اوس پھیر دی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کرکٹ