اب جب کہ بظاہر ملک سے کرونا (کورونا) وائرس کے بادل چھٹنے لگے ہیں اور دوسری کاروباری سرگرمیوں کے ساتھ سینیما بھی بحال ہو رہے ہیں، تو نئی فلمیں بھی سینسر کے لیے پیش ہونے لگی ہیں۔
گذشتہ روز ہمیں نئی انگریزی فلم ’دا ہنٹ‘ کی سینسر بورڈ کے سامنے سکریننگ اور اس کے بعد سینسر کے عمل کے مشاہدے کا موقع ملا، جس کے دوران ہم نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ یہ ساری کارروائی کیسے ہوتی ہے اور اس کے کیا اصول و ضوابط ہیں۔
اس کے بعد ہم بتائیں گے کہ اس فلم پر کیا بحث ہوئی اور آیا اسے پاکستانی سینیماؤں میں نمائش کی منظوری ملی یا نہیں۔
سب سے پہلے تو یہ جان لیجیے کہ وزارتِ اطلاعات کے ماتحت ایک ادارہ سینٹرل بورڈ آف فلم سینسرز کام کرتا ہے اور اسی کے کندھوں پر فلمیں جانچنے، پرکھنے کا بوجھ ہے، چاہے یہ فلمیں پاکستان میں بنی ہوں یا باہر سے درآمد کی گئی ہوں۔
چونکہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد ثقافتی امور بھی صوبوں کے حوالے کر دیے گئے ہیں، اس لیے اب یہ ادارہ پورے پاکستان کی بجائے اسلام آباد، خیبر پختونخوا، بلوچستان اور فوجی چھاؤنیوں کے اندر فلموں کو قبول یا رد کرنے پر مامور ہے اور پنجاب اور سندھ والوں کے اپنے الگ بورڈ ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سینسر بورڈ کام کیسے کرتا ہے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اس ادارے کا سارا فریم ورک ایک قانون کی چھتری کے تلے آتا ہے جسے موشن پکچرز آرڈیننس مجریہ 1979 کہتے ہیں۔ پاکستان میں صرف وہی فلمیں دکھائی جا سکتی ہیں جو اس قانون میں وضع کردہ معیاروں پر پوری اترتی ہیں۔
ان معیاروں میں یہ شامل ہے کہ فلم میں اسلام کی شان و شوکت کے خلاف کوئی چیز نہ ہو، پاکستان کے دفاع پر کوئی حرف نہ آتا ہو، اخلاقی طور پر کوئی گری ہوئی چیز نہ ہو اور نہ ہی فلم کسی مجرمانہ کارروائی پر اکساتی ہو۔
یہ تو سامنے کی باتیں ہیں، البتہ یہ شق بہت پسند آئی کہ فلم ساز کی آزادیِ اظہار اور فنکارانہ آزادی کا خیال رکھا جائے۔
اب ظاہر ہے کہ کسوٹی تو طے ہو گئی، مگر فلم کو اس کسوٹی سے گزارتا کون ہے؟
اس مقصد کے لیے سینسر بورڈ کے ارکان منتخب کیے جاتے ہیں۔ ان ارکان کی تعداد 20 ہے اور کوشش کی جاتی ہے کہ ان میں زندگی کے مختلف اور متنوع شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل ہوں تاکہ مختلف آرا کی نمائندگی ہو سکے۔
سب سے پہلے حساس اداروں سے تعلق رکھنے والے دو افراد کا نام آتا ہے جن میں ایک بریگیڈیئر اور ایک لیفٹیننٹ کرنل شامل ہیں۔
اس کے بعد ایک پولیس افسر، نیب کا ایک اہل کار، ایک سیاست دان، دو صحافی (دلچسپ بات یہ ہے کہ دونوں کا تعلق ایک ہی ادارے یعنی جنگ جیو گروپ سے ہے)، ایک ڈاکٹر، ایک سابق چیئرمین سی ڈی اے اور چند دوسرے بیوروکریٹ شامل ہیں۔
البتہ جو بات سب سے زیادہ حیرانی بلکہ پریشانی والی تھی، وہ یہ ہے کہ 20 ارکان میں صرف ایک خاتون کا نام نظر آتا ہے۔ سینسر بورڈ کے قائم مقام چیئرمین جاوید شہزاد نے مجھے بتایا کہ ہر اجلاس میں 20 کے 20 ارکان شرکت نہیں کرتے، بلکہ اوسطاً سات آٹھ لوگ ہی کسی سکریننگ میں آ پاتے ہیں۔ حالیہ اجلاس میں تو خاتون شامل تھیں، لیکن بظاہر ایسا لگتا ہے کہ ایسے کئی اجلاس منعقد ہوتے ہوں گے جن میں ملک کی نصف آبادی کی نمائندگی نہیں ہوتی۔ دنیا صنفی توازن کی طرف جا رہی ہے، تو سینسر بورڈ کے لیے مشورہ مفت ہے کہ زیادہ خواتین کو شامل کرنے پر غور کریں۔
جب فلم بنتی ہے تو تقسیم کار یا ڈسٹری بیوٹر اسے خرید لیتے ہیں اور وہی اسے سینسر بورڈ کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ اس عمل کی فیس پاکستانی فلم کے لیے 25 ہزار اور غیر ملکی فلم کے لیے 20 ہزار ہے۔ اس کے بعد سینسر بورڈ کسی مخصوص دن اپنے ارکان کو طلب کر کے انہیں فلم دکھاتا ہے، جس کے بعد ایک اجلاس منعقد ہوتا ہے جس میں فلم کی درجہ بندی کی جاتی ہے۔
ہر قسم کے لوگوں کے لیے جو فلم مناسب معلوم ہو، اسے ’یو‘ یعنی یونیورسل کا سرٹیفیکیٹ دیا جاتا ہے، جو فلمیں فیملی کے ساتھ دیکھنے لائق ہوں، انہیں ’ایف‘ سے نوازا جاتا ہے، جب کہ کچھ فلمیں ایسی ہوتی ہیں جنہیں صرف 18 سال سے زیادہ عمر کے لوگوں کو دکھانے کے لیے ’اے‘ کا سرٹیفیکیٹ ملتا ہے۔ عرف عام میں اسے ’صرف بالغوں کے لیے‘ کہا جاتا ہے۔ امریکہ میں انہیں درجوں کو جی، پی جی، اور آر کہا جاتا ہے۔
اب چلتے ہیں فلم ’دا ہنٹ‘ کی جانب، جس کی خصوصی سکریننگ منگل کو راولپنڈی کے اوڈین سینیما میں ہوئی۔ اجلاس میں کل آٹھ ارکان شریک تھے جب کہ ہمیں بطور مبصر مدعو کیا گیا تھا۔
فلم شروع ہوتے ہی پتہ چل گیا کہ یہ خاصی ’گرافک‘ ہے۔ اس لفظ کا اردو متبادل نہیں معلوم، بس اتنا سمجھ لیجیے کہ اس میں خون خرابہ اتنا زیادہ اور واضح ہے کہ ہلاکو اور چنگیز بھی آنکھیں پھیر لیں۔ اگر نہ پھیریں تو ہر چار چھ منٹ کے بعد کسی انسان کو کسی نئے طریقے سے وحشیانہ موت مرتے دیکھنا پڑے، جن میں آنکھ کے ڈھیلے کو جڑ سمیت باہر نکالنا، برچھے سینے کے آرپار ہونا، رائفل سے فائر کرکے کسی کا سر اڑا دینا، گرینیڈ سے جسم کے پرخچے بکھیر دینا وغیرہ وغیرہ شامل ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اس فلم کو ایکشن اور تھرلر کے علاوہ ’ہارر‘ کے زمرے میں بھی رکھا گیا ہے۔
جہاں تک ہمارا تعلق ہے تو چونکہ ہمارے کاندھوں پر فلم سینرشپ کی بھاری ذمہ داری کا طوق پڑا تھا، اس لیے آنکھیں پھیرنے کی بجائے جب بھی سکرین پر کسی کی گردن یا سینے سے خون کے فوارے بھوٹتے تو ہم کھلی آنکھوں کی بجائے طوعا و کرہاً کن اکھیوں سے سین دیکھنے کی کوشش کرتے تھے، تاکہ ہماری نفسیات اور رات کی نیند وغیرہ پر مضر اثرات مرتب نہ ہوں۔
پھر یہ تھا کہ فلم میں گالیاں بھی بہت تھیں، جنہیں عرفِ عام میں ’ایف ورڈز‘ کہا جاتا ہے۔ لیکن اس سے بھی بڑھ کے ایک موقعے پر ایک کردار نے ایک مذہبی نام یوں استعمال کیا جس پر بعض لوگوں کو اعتراض ہو سکتا ہے کہ یہ مذہبی یا نسلی تعصب کے زمرے میں آ سکتا ہے۔
فلم کے بعد بورڈ کے اراکین نے مختصر بحث کی، جس کے بعد فیصلہ ہوا کہ فلم میں برتے جانے والی خوںخواری اور گالم گلوچ کے پیشِ نظر اسے ’اے‘ کا سرٹیفیکیٹ دیا جائے، یعنی بچے اسے نہیں دیکھ سکیں گے، جب کہ مذہبی نام والے حصے کی آواز دبا دی جائے گی۔
اب معلوم نہیں کہ سینیما والے ہر ٹکٹ خریدنے والے کا شناختی کارڈ چیک کر کے اسے اندر جانے کی اجازت دیتے ہیں یا پھر کن اکھیوں سے دیکھ کر جانے دیتے ہیں۔