گلیاں ہو جان سنجیاں

مصر سمجھتا ہے کہ اسرائیل ۔ امارات معاہدے سے عرب دنیا کا سیاسی مرکز ثقل قاہرہ سے خلیجی ریاستوں کی سمت منتقل ہو رہا ہے۔

امارات ۔ اسرائیل امن معاہدے نے عبدالفتاح السیسی کو اپنے عبقری حامیوں کے حلقے میں بھی شرمسار کر دیا ہے (اے ایف پی)

کئی دہائیوں سے مصر، مشرق وسطیٰ کے امن عمل میں اہم کردار ادا کرتا چلا آیا ہے۔ اسرائیل سے سفارتی تعلقات سے قبل قاہرہ کو واشنگٹن سمیت کئی یورپی دارالحکومتوں میں نمایاں اثر ورسوخ حاصل رہا ہے۔

تاہم ان دنوں مصری قیادت متحدہ عرب امارت اور اسرائیل کے درمیان حال ہی میں پروان چڑھنے والے سفارتی تعلقات کی وجہ سے پریشان دکھائی دیتی ہے۔ خطے میں باہمی تسلیم ورضا کے حوالے سے ہونے والی پیش رفت نے عرب دنیا کے اسرائیل کے ساتھ رابطہ کار کے طور پر مصر کے دیرینہ کردار کو خطرات سے دوچار کیا ہے۔

یہ تحریر اگر آپ سننا چاہیں تو مصنف کی آواز میں یہاں سن سکتے ہیں

 

نئے ’تاریخی امن معاہدے‘ سے مصری حلقوں میں یہ یقین راسخ ہو چلا ہے کہ حالیہ دنوں میں عرب دنیا کا سیاسی مرکز ثقل قاہرہ سے خلیجی ریاستوں کی جانب منتقل ہونا شروع ہو گیا ہے۔

تعلقات نارملائزیشن کے بعد، امارات ۔ اسرائیل اکیڈمک تعاون، تعلیمی اور سیاحتی تبادلے کے باقاعدہ معاہدوں پر دستخط کرنے والے ہیں۔ متحدہ عرب امارات کے ہاں دولت کی ریل پیل کو دیکھتے ہوئے ہمہ جہتی معاہدوں پر دستخط کے بعد خطے کی سیاست میں مصر کا رسوخ مزید کم ہونے کا امکان ہے۔

مصری صدر عبدالفتاح السیسی نے ’امن معاہدہ‘ کرنے والے امارات اور اسرائیل کو اگرچہ اعلانیہ طور پر اپنی حمایت کا یقین دلایا ہے مگر اہرام مصر کی دیو ہیکل دیواروں پر چھائی ہوئی اداسی زبان حال سے ’دن رہ گئے تھوڑے‘ پکار رہی ہے۔ مصر میں حکومت نواز ذرائع ابلاغ نے امارات ۔ اسرائیل معاہدے پر انتہائی سست انداز میں ردعمل کا اظہار کیا۔ السیسی کے حامی مٹھی بھر کالم نگاروں نے معاہدے پر تبصرے کیے۔

اس کے برعکس مصری ٹی وی چینلز نے معاہدے کی خبر کو اپنے رن ڈاؤن میں جس ترجیح پر شامل کیا، اس سے بہتر ہوتا کہ وہ عالمی شہہ سرخیوں میں جگہ پانے والی اس نیوز کو ‘KILL’ کر دیتے۔ سیاسی میدان میں بھی مصری پارلیمان نے امارات۔اسرائیل معاہدے پر تبصرے کو در خواعتنا نہ جانا حالانکہ اس نمائشی ایوان میں متحدہ عرب امارات کے قطر اور ترکی کے خلاف اقدامات پر کھلے عام بحث کا کلچر عام رہا ہے۔

سانپ سونگھنے کی وجہ؟

واشنگٹن ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے مطابق دو اہم باتوں سے مصر کے نسبتاً خاموش رویے کی وضاحت ہوتی ہے۔ اول: مصری حکومت، امارات، اسرائیل دوستی کی خبریں اچانک سامنے آنے پر دم بخود رہ گئی اور عین ممکن ہے کہ وہ اپنے اگلے لائحہ عمل کے اعلان سے پہلے ان دنوں اس پر غور وفکر میں مصروف ہو۔ اگر ایسی بات ہے تو یقیناً سرکاری حکام کو واضح ہدایات نہیں تھیں کہ انہوں نے اسرائیل، امارات معاہدے پر کیا موقف اختیار کرنا ہے۔

دوئم: مصری ذرائع ابلاغ کے نمایاں چہرے دراصل بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے جمال عبد الناصر کے سیاسی مکتبہ فکر کی نمائندگی کرتے ہیں۔ جمال عبدالناصر اسرائیل سے تعلقات نارملائزیشن کے سخت خلاف تھے۔ خطے میں ہونے والے اہم تبدیلیوں سے لاعلم رکھنے پر ایک طرف قاہرہ کے سینے پر سانپ لوٹ رہا ہے وہیں دوسری جانب امارات ۔ اسرائیل امن معاہدے نے عبدالفتاح السیسی کو اپنے عبقری حامیوں کے حلقے میں بھی شرمسار کر دیا ہے۔

چند مصری شخصیات سنجیدگی سے یہ بات سمجھتی ہیں کہ خطے میں اسرائیل کے ساتھ تعاون کے ضمن میں کلیدی کردار ادا کرنے کا موقع مصری صدر عبدالفتاح السیسی کے ہاتھ سے نکل چکا ہے۔

قاہرہ کو معلوم ہو گیا ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ میں اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے امن پروگرام کا اب حصہ نہیں۔ مصری حکومت، اسرائیل کو دباؤ میں لانے کے لیے نارملائزیشن کارڈ کا استعمال نہیں کر سکتی۔ قاہرہ کبھی سوچ نہیں سکتا تھا کہ نیتن یاہو خلیجی رہنماؤں کے ساتھ اتنی تیزی سے تال میل بڑھا لیں گے۔

مصر کے لیے یہ حقیقت زیادہ تشویش کا باعث ہے کہ متحدہ عرب امارات کی اسرائیل دوستی کا مقابلہ کرنے کے لیے اس کے پاس اتنی دولت فراواں نہیں جو یو اے ای کے پاس موجود ہے۔ یو اے ای اپنی دولت کے بل بوتے پر تل ابیب سے انتہائی تیزی رفتاری سے تجارتی معاہدے کر سکتا ہے۔

قاہرہ، غم نہ کر!

بہت سا پانی پلوں کے نیچے سے بہہ چکا ہے، تاہم اس تشویش کے برعکس مصر ۔ اسرائیل تعاون کے بنیادی پہلو اپنی جگہ برقرار رہیں گے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

قاہرہ صحرائے سینا کے علاقے میں دہشت گردی کے خاتمے کی کارروائیوں میں اسرائیل کا اہم شریک رہے گا۔ مصر، حماس کے زیر نگیں غزہ کی پٹی میں متمکن مزاحمتی گروپوں کے ساتھ مذاکرات میں اپنا اہم کردار ادا کرتا رہے گا۔ نیز اسرائیل کو گیس فراہمی منصوبے کے تحفظ اور ترویج کا مستقبل بھی مصر سے وابستہ ہے، جسے فی الحال اسرائیل کی سرحد سے ہزاروں میل دور امارات سے طے پانے والے امن معاہدے سے کوئی گزند پہنچنے کا امکان نہیں۔

اسرائیل ۔ امارات معاہدہ ایسے دور میں طے پایا جب مصر کی خارجہ پالیسی کئی محاذوں پر نبرد آزما تھی۔ مصر کی خارجہ پالیسی کو کئی پہلوؤں سے نقصان پہنچ رہا ہے۔ لیبیا میں قاہرہ کی پوزیشن کمزور ہو رہی ہے۔ النہضہ ڈیم بحران میں مصری خارجہ پالیسی کو پسپائی کا سامنا ہے۔ مشرقی بحیرہ روم  میں ترکی کا مقابلہ کرنے کے لیے مصر کو یونان اور فرانس سے معاونت کی درخواست کرنا پڑ رہی ہے۔

قاہرہ کو خطے میں اپنی پوزیشن مضبوط بنانے کے لیے معطل شدہ اسرائیل ۔ فلسطین مذاکرات جلد یا بدیر شروع کرنے کے لیے واشنگٹن کو آمادہ کرنا پڑے گا۔ مصر کو اپنی اسرائیل مخالف پالیسیوں پر نظر ثانی کرنا ہو گی۔ السیسی حکومت کو اسرائیل سے معاملات سجھانے کی کوششیں تیز کرنا پڑیں گی بصورت دیگر مصر کا عالمی وقار اور اثر ورسوخ تیزی سے کم ہوتا جائے گا۔

بعض مبصرین کے خیال میں اسرائیل سے روابط کے اکلوتے چینل کے طور پر مصر اپنی حیثیت برقرار رکھنا چاہتا ہے۔ اس مقصد کے لیے قاہرہ نے دوہری پالیسی اپنا رکھی ہے۔ ایک طرف وہ مغربی دنیا کو باور کرا رہا ہے کہ وہ خطے میں اسرائیلی تسلط قبول کرنے والا پہلا ملک ہے۔ دوسری جانب وہ عربوں کی صفوں میں ان حلقوں کی مسخ شدہ تصویر پیش کر رہا ہے جو اسرائیل سے معاملات کرنا چاہتے ہیں۔

یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ متحدہ عرب امارات کا اسرائیل سے تعلقات استوار کرنے کا اقدام عرب نشاۃ ثانیہ اور جمہوری تبدیلیوں کا راستہ روکنے کے لیے اٹھایا گیا۔ یو اے ای کو چاہیے کہ وہ نئے دوست بنانے کی خو میں اس محاذ پر ماضی میں ہراول دستے کا کردار ادا کرنے والے مصر کو یک وتنہا کرنے سے باز رہیں۔

خطے کی تاریخ کے اہم سنگ میل پر استعمار کی ’لڑاو اور حکومت کرو‘ کی پالیسی سے خبردار رہیں ورنہ مرزا یار کی سنجی گلیوں میں پھرنے کی خواہش ڈروانا خواب بھی ثابت ہو سکتی ہے

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ