طالبان کی سختیاں برداشت کرنے والی خواتین کے ان سے مذاکرات

افغانستان میں طالبان کے سخت دور میں زندگی گزارنے اور طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد اپنے حقوق کے لیے کوششیں کرنی والی پانچ خواتین اب امن مذاکرات میں طالبان کا سامنا کرنے کی تیاری کر رہی ہیں۔

افغانستان میں طالبان کے سخت دور میں زندگی گزارنے اور طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد اپنے حقوق کے لیے کوششیں کرنی والی پانچ خواتین اب امن مذاکرات میں طالبان کا سامنا کرنے کی تیاری کر رہی ہیں۔

افغانستان کے پدرشاہی معاشرے میں مذاکرات کی میز پر ان خواتین کی موجودگی ایک اہم پیش رفت ہے گو کہ وہ حکومتی وفد میں شامل 16 مردوں کے مقابلے میں کم تعداد رکھتی ہیں جبکہ طالبان کے وفد میں صرف مرد شامل ہوں گے۔

امن مذاکرات کے لیے قائم کیے جانے والے حکومتی وفد میں شامل فوزیہ کوفی کا کہنا ہے کہ 'طالبان کو سمجھنا ہو گا کہ وہ ایک نئے افغانستان کا سامنا کر رہے ہیں جس میں انہیں رہنا سیکھنا ہو گا۔'

خواتین کے حقوق کے لیے کافی سرگرم رہنے والی فوزیہ  دو قاتلانہ حملوں کو نشانہ بن چکی ہیں لیکن وہ ان حملوں میں محفوظ رہیں۔ ان میں سے ایک حملہ چند ہفتے قبل کابل میں اس وقت ہوا جب حکومت اور طالبان نے مذاکرات کے لیے تیار ہونے کا اعلان کیا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

وہ کہتی ہیں 'خواتین کے لیے اتنا اہم کردار ادا کرنا افغانستان میں معمولی بات نہیں۔ آپ کو ان افراد میں اپنی جگہ بنانی ہے جو خواتین کی موجودگی کو قبول نہیں کرتے۔'

طالبان کے 1996 سے 2001 تک کے دورِ حکومت میں فوزیہ کے شوہر قید میں تھے جب کہ انہیں ناخن پالش لگانے پر سنگسار کرنے کی دھمکی دی گئی تھی۔

طالبان کی مذہبی پولیس خواتین کو مکمل برقعے کے علاوہ کچھ پہننے پر کوڑوں سے مارتی تھی اور زنا کے الزام کا سامنا کرنے والوں کو جمعے کی نماز کے بعد میدانوں میں سنگسار کیا جاتا تھا۔

تاہم اب کابل اور دوسرے افغان شہروں میں حالات کافی بدل چکے ہیں۔ اب خواتین تعلیم حاصل کر رہی ہیں اور اہم عہدوں کے ساتھ ساتھ کاروباری سرگرمیوں میں بھی شریک ہیں گو کہ ان کی تعداد کافی کم ہے۔

اسلامی قوانین کی ماہر فاطمہ گیلانی بھی مذاکراتی وفد میں شامل ہیں۔ 66 سالہ فاطمہ کا کہنا ہے کہ 'افغانستان میں موجود ہر خاتون میں ایک خوف ہے۔ ہم خوف زدہ ہیں کہ افغانستان میں جب بھی سیاسی تبدیلی آتی ہے خواتین کو نقصان ہوتا ہے۔'

فاطمہ سوویت یونین کے خلاف جنگ میں مجاہدین کی ترجمان رہی ہیں اور اب افغان ہلال احمر کی صدر ہیں۔ طالبان نے بھی شریعت کے مطابق خواتین کے حقوق کی حفاظت کا ایک مبہم سا بیان جاری کیا ہے۔

مذاکراتی وفد میں شامل ایک اور خاتون حبیبہ سرابی ہیں جنہیں طالبان کے دور میں کام پر پابندی کے باعث پاکستان فرار ہونا پڑا تھا تاکہ وہ پڑھانے کا سلسلہ جاری رکھ سکیں۔

62 سالہ حبیبی افغانستان کی پہلی خاتون گورنر رہی ہیں اور دو بار وزارت بھی سنبھال چکی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ 'افغانستان میں طالبان جنگجوؤں کے نظریات وہی ہیں اور ان کا رویہ بھی پہلے جیسا ہی ہے۔'

وفد میں شامل دو اور خواتین شہلا فرید اور شریفہ زرمتی ہیں۔

شہلا فرید ایک وکیل اور خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی شخصیت ہیں جبکہ شریفہ زرمتی پکتیکا صوبے سے تعلق رکھنے والی مقامی سیاست دان ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا