جب فلم ’پاکیزہ‘ کے ساتھ ’بےایمانی‘ پہ پران نے ایوارڈ واپس کر دیا

پران صاحب کے چہرے پر پریشانی عیاں تھی، پیشانی پر بل پڑنا شروع ہو گئے تھے۔ انہیں یہ منطق ہرگز سمجھ نہیں آ رہی تھی، انتظار تھا بہترین موسیقار کے حقدار کا، جس کے لیے موسیقاروں کے درمیان کانٹے کا مقابلہ ہو رہا تھا ۔

(سوشل میڈیا)

مشہور ولن پران صاحب اپنی نشست پر بڑی بے چینی کے ساتھ پہلو بدل رہے تھے۔ 1973 میں بمبئی میں ہونے والی فلم فئیر ایوارڈز کی تقریب چل رہی تھی جس میں فلمی ستاروں کی کہکشاں زمین پر اتری ہوئی تھی۔

جن ستاروں کو پچھلے سال کی بہترین کارکردگی پر ایوارڈ ملے تھے ان کے چہرے خوشی سے دمک رہے تھے۔ تعریفوں کے پُل باندھے جارہے تھے، ہر کامیاب شخص چہک رہا تھا لیکن پران صاحب ان سب سے بے نیاز اور لاتعلق تھے بلکہ ان کی نگاہیں تو سٹیج پر جمی ہوئی تھیں۔ اس بے چینی اور اضطرابی کیفیت میں اُس وقت اور اضافہ ہوگیا تھا، جب مرد اور خواتین پلے بیک سنگرز کی کیٹگریز میں ان کی من پسند کلاسک رومنٹک میوزیکل فلم ’پاکیزہ‘ کے کسی گیت کی نامزدگی نہیں ہوئی تھی۔

دکھ اور تکلیف تو انہیں اس بات پر بھی ہوئی جب حیران کن طور پر مینا کماری کی اس شاہکار تخلیق کے نغمہ نگارکیفی اعظمی، مجروح سلطان پوری، کیف بھوپالی اور کمال امروہوی تک کو اس قابل نہیں سمجھا گیا کہ وہ بہترین نغمہ نگار کی کیٹگری میں جگہ پاتے۔

یہ اس لیے حیرت کی بات تھی کہ ایک عالم ’پاکیزہ‘ کے گانوں کا دیوانہ تھا، ہر جانب اسی کلاسک کے گانے گونج رہے تھے۔ مگر فلم فیئر ایوارڈز کے منصفین نے سرے سے اس شعبے میں بھی فلم کا پتہ صاف کر دیا۔

پران صاحب کے چہرے پر پریشانی عیاں تھی، پیشانی پر بل پڑنا شروع ہو گئے تھے۔ انہیں یہ منطق ہرگز سمجھ نہیں آ رہی تھی، انتظار تھا بہترین موسیقار کے حقدار کا، جس کے لیے موسیقاروں کے درمیان کانٹے کا مقابلہ ہو رہا تھا کیونکہ ایک طرف جہاں لکشمی کانت پیارے لال ’شور‘ کے لیے نامزد ہوئے تھے، وہیں ایک اور موسیقار جوڑی شنکر جے کشن فلم ’بے ایمان‘ کے لیے قسمت آزما رہے تھے۔ یہ وہی فلم تھی جس میں پران صاحب نے پولیس افسر کا جاندار کردار ادا کیا تھا۔ اس کیٹگری میں تیسرا نام غلام محمد کا ’پاکیزہ، کے لیے منتخب کیا گیا تھا جو کمال امروہوی کی دلوں کے تار چھیڑتی ہوئی مدھر اور نغماتی میوزیکل فلم کی نمائش سے پہلے وفات پا گئے تھے۔

پران صاحب کو یقین تھا بلکہ ان کا دل تمام تر زمینی حقائق اور ’پاکیزہ‘ کے گانوں کی مقبولیت اور شہرت کو دیکھتے ہوئے یہی کہہ رہا تھا کہ ایوارڈ تقریب میں اب تک جو ناانصافی ہوئی ہے وہ غلام محمد کے اعلان کے بعد تھوڑا بہت ازالہ پا جائے گی۔ اسی بنا پر وہ بڑے اشتیاق کے ساتھ اور دھڑکتے دل کو قابو میں رکھتے ہوئے سٹیج پر موجود اُن فنکاروں کو دیکھ رہے تھے جو کامیاب امیدوار کے نام کا لفافہ کھولنے میں لگے تھے۔

تھوڑی دیر بعد بہترین موسیقار کے نام کا اعلان ہو گیا۔ جیسے ہی پران کے کانوں نے شنکر جے کشن کانام سنا تووہ ایک اور صدمے سے دوچار ہو گئے۔ ابتدا میں تو انہیں اپنی سماعت پر یقین نہیں آیا، لیکن جب اپنی نشستوں سے موسیقار جوڑی کو ایوارڈ وصول کرنے کے لیے بڑھتے دیکھا تو جیسے پران صاحب کا دل ہی ٹوٹ کر ریزہ ریزہ ہو گیا۔

'بے ایمان' کے فنکار اور ہدایت کار اپنی کامیابی پر زوردار تالیاں بجا کر جشن منارہے تھے لیکن پران صاحب ایوارڈ دینے والوں کی بےایمانی پر سر جھکائے زمین کو گھورے جا رہے تھے۔ ان کا دل گوارا نہیں کر رہا تھا، وہ اس محفل میں بیٹھے رہیں۔ منصفین کے معیار کا کیا پیمانہ رہا جو انہوں نے ’پاکیزہ‘ پر ’بے ایمان‘ کو فوقیت دی، جس کا ایک بھی گیت مقبول نہیں ہوا تھا، یہ وہ سوال تھا جو پران صاحب کے ذہن میں کلبلا رہا تھا۔

پران صاحب کے چہرے پراب ناگواری کے سائے تھے۔ وہ اٹھنا تو چاہتے تھے لیکن پھر جیسے ایک بار پھر ان کے قدم یہ سوچ کر تھم گئے کہ ناانصافی، اور جانبداری کے اس کھیل تماشے کا اختتام بھی دیکھ کر ہی جائیں۔ ممکن ہے کہ بہترین فلم، ہدایتکار اور اداکارہ کے لیے ’پاکیزہ‘ کو کوئی اعزاز مل جائے جن کا اعلان ہونا ابھی باقی تھا۔

اسی دوران انہیں ’بے ایمان‘ پر بہترین معاون اداکار کا ایوارڈ دینے کے لیے سٹیج پر مدعو کیا گیا توان کے قدموں میں تھکاوٹ تھی۔ ایوارڈ وصول کرنے کے باوجود وہ اُس خوشی اور مسرت کا اظہار نہ کر سکے جو اس سے پہلے دو بار ماضی میں ان کے انگ انگ سے پھوٹتی تھی۔

پران صاحب واپس نشست پر آ کر بیٹھ گئے تھے۔ اب بہترین اداکارہ کے لیے قسمت آزمانے والی پری چہرہ حسیناؤں کے ناموں کا اعلان ہونا تھا۔ جن میں امر پریم کے لیے شرمیلا ٹیگور، آنکھوں آنکھوں کے لیے راکھی، سیتا گیتا کے لیے ہیما مالنی اور پاکیزہ کے لیے مینا کماری مقابلے پر تھیں۔ وہی میناکماری جن کے ساتھ پران صاحب نے جب ’آزاد‘ میں پہلی بارکام کیا تو وہ ان کی پرکشش، پروقار شخصیت اور اداکاری کے گرویدہ ہو گئے تھے۔ ان کے ساتھ وہ فارغ اوقات میں اردوادب کی محفلیں بھی سجاتے۔ وہی مینا کماری جو اس ایوارڈ تقریب سے ایک سال پہلے دنیا سے منہ موڑ گئی تھیں۔

پران صاحب کو یقین تھا کہ ’پاکیزہ‘ میں غیر معمولی فطری اداکاری اور رقص پیش کرنے پر مینا کماری ہی اس ایوارڈ کی حقدارٹھہریں گی، جنہیں بعد از مرگ یہ اعزاز بخشا جائے گا۔ لیکن اس دن پران صاحب کے ہر اندازے غلط ثابت ہو رہے تھے اور جب ہیمامالنی کے ہاتھوں میں ٹرافی آئی تو پران صاحب کی آنکھیں نم ہو گئیں اور یہ سلسلہ اس وقت طول پکڑ گیا جب بہترین ہدایتکار کے لیے کمال امروہوی کو نظر انداز کر کے ’بے ایمان‘ کے ہدایت کار سوہن لال کنورکا نام پکارا گیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بدقسمتی سے بہترین فلم کا اعزاز بھی انہی کی فلم کے حصے میں آیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ شہرہ آفاق ’پاکیزہ‘ کو صرف ایک یعنی بہترین آرٹ ڈائریکشن کا ایوارڈ دیا گیا جبکہ پران صاحب کی ’بے ایمان‘ نے آٹھ میں سے سات ایوارڈز جیتے۔

ایوارڈ تقریب ختم ہوچکی تھی، ذرائع ابلاغ کے نمائندے کامیاب ستاروں سے گفتگو میں مصروف تھے۔ پران صاحب اپنی نشست پر براجمان تھے اور صرف ایک بات ہی سوچ رہے تھے کہ آخر ’پاکیزہ‘ کے ساتھ ایسا کیوں ہوا؟ ان کی سوچ گہری ہوتی جا رہی تھی اور اسی کشمکش میں وہ کسی فیصلے پر پہنچ رہے تھے، ایسا فیصلہ جو ایوارڈ منصفین کے اقدام پر انگلیاں اٹھا گیا ۔ وہ اُس وقت چونکے جب فلمی جریدے کا رپورٹر ان سے تاثرات جاننے کے لیے ان کی طرف لپکا۔ تب انہوں نے اس پر یہ کہہ کر بجلی گرائی کہ وہ اپنا ایوارڈ واپس کررہے ہیں۔ یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پورے ہال میں پھیل گئی تھی۔ اب رپورٹرز نے پران صاحب کو گھیرا ہوا تھا، جن سے اس فیصلے کی وجہ دریافت کی جارہی تھی۔پران صاحب نے جذباتی اور دکھی انداز میں صرف یہی کہا کہ’اگر آپ ’بے ایمان، او ر ’پاکیزہ، کی موسیقی کا موازنہ کریں تو بخوبی جان جائیں گے کہ میرے فیصلے کی کیا وجہ ہے۔ کس کے گانے میں نغمگی اور موسیقی ہے، یہ ’پاکیزہ، کی نمائش کے بعد روز اول سے عیاں ہے اور وہ کم از کم حقدار کے ساتھ ہونے والی اس ناانصافی، زیادتی اور بے ایمانی کو برداشت نہیں کرسکتے۔ جبھی احتجاجاً اپنا ایوارڈ واپس کررہے ہیں۔

یہ کہتے ہوئے پران صاحب نے منتظمین کو ایوارڈ تھمایا اور لمبے لمبے قد بڑھاتے ہوئے تقریب سے چلتے بنے۔ وہ خاصے پرسکون تھے کیونکہ ان کا ضمیر مطمین تھا کہ کسی نے نہیں کم از کم انہوں نے تو ’پاکیزہ، کے لیے آواز اٹھائی۔ حیران کن بات یہ ہے کہ اس کے بعد پران صاحب کی اس جرات پر کبھی بھی وہ کسی بھی کیٹگری میں فلم فئیر ایوارڈ کے مستحق نہیں ٹھہرے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ اس واقعے کے پچیس سال بعد فلم فئیروالوں نے پران صاحب کوسپیشل ایوارڈ  دے کر خراج تحسین پیش کیا۔

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ