بدھا کا مجسمہ توڑنے کی وائرل ویڈیو: تخت بھائی سے مزید کچھ ملا؟

19 جولائی کو ضلع مردان کے علاقے تخت بھائی میں مجسمہ توڑنے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تو محکمہ آثار قدیمہ حرکت میں آگیا اور اس جگہ پر اہلکاروں کو تعینات کرکے بند کردیا گیا تھا۔

محکمہ آثار قدیمہ نے خیبر پختونخوا کے ضلع مردان کے علاقے تخت بھائی کو کلیئر قرار دے دیا ہے، جہاں سے کھدائی کے دوران ملنے والے ایک بدھا کے مجسمے کو مزدورں نے ٹکڑے ٹکڑے کردیا تھا۔

بدھا کا مجسمہ ملنے کی جگہ سے مزید آثار برآمد نہ ہونے پر اندازہ لگایا گیا کہ بدھا کا یہ مجسمہ کسی دوسرے علاقے سے یہاں لاکر پھینکا گیا تھا۔

تخت بھائی کی آثار قدیمہ سائٹ سے پانچ کلومیٹرکے فاصلے پر واقع کامران گاؤں میں لوکاٹ کے باغ کے پاس ایک نالے کی تعمیر کے لیے کھدائی کے دوران مزدوروں کو بدھا کا ایک مجسمہ ملا تھا جسے کام کے دوران توڑ دیا گیا تھ۔

جب 19 جولائی کو مجسمے توڑنے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تو محکمہ آثار قدیمہ حرکت میں آگیا اور اس جگہ پر اہلکاروں کو تعینات کرکے بند کردیا گیا جبکہ مجسمے کو توڑنے والے مزدورں پر اینٹیکویٹی ایکٹ 2016 کے تحت مقدمہ درج کرکے انہیں گرفتار کرلیا گیا۔

تخت بھائی میں بین الاقوامی آثار قدیمہ کی نگرانی پر مامور اسسٹنٹ کیوریٹر میاں وہاب شاہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ 'کھدائی کے دوران بدھا کا مجسمہ ملنے کے واقعے کے بعد دیگر باقیات تلاش کرنے کے لیے محکمہ آثار قدیمہ نے وہاں پر کھدائی کا ایک پروجیکٹ لانچ کیا اور 20 سے 21 دن تک کھدائی کی گئی لیکن وہاں سے آثار قدیمہ کے کوئی خاص آثار نہیں ملے، صرف کچھ سکے اور پتھر برآمد ہوئے، جن کی رجسٹریشن کی جارہی ہے  اور انہیں مردان میوزیم میں شفٹ کردیا گیا ہے۔'

میاں وہاب شاہ نے بتایا کہ 'اندازے کے مطابق یہ مجمسہ کچھ عرصہ پہلے کہیں اور سے لاکر یہان پھینکا گیا تھا۔ جہاں سے یہ مجسمہ ملا تھا یہ جگہ ورلڈ ہیریٹیج سائٹ سری بہلول  گاؤں کے بالکل قریب ہے اور لوگوں کے آنے جانے کا راستہ بھی ہے۔'

انہوں نے مزید بتایا کہ 'مجسمے کے ٹکڑے پولیس کے قبضے میں ہیں جبکہ بدھا کا مجسمہ توڑنے والے چاروں ملزمان گرفتاری کے بعد دس دن تک جیل میں رہے، اب انہوں نے عدالت سے ضمانت پر رہائی حاصل کی ہے۔ ان کے خلاف کیس چل رہا ہے اور اگر عدالت میں ملزمان پر جرم ثابت ہوگیا تو محکمہ آثار قدیمہ کے ایکٹ 2016 کے تحت ان کے خلاف کاروائی ہوگی جبکہ مجسمے کی باقیات محکمہ آرکیالوجی اینڈ میوزیم کے حوالے کردی جائیں گی۔'

وہاب شاہ کے مطابق: 'وہ ٹکڑے جوڑنے کے قابل نہیں ہیں لیکن ہم کوشش کریں گے کہ انہیں جوڑا جاسکے، جس کے لیے سلیکون یا دوسرے کیمیکل استعمال ہوسکتے ہیں۔'

آثار قدیمہ قرار دیے گئے علاقوں میں تعمیراتی کھدائی کے لیے اجازت نامہ کی ضرورت کے حوالے سے سوال کے جواب میں اسسٹنت کیوریٹر وہاب شاہ نے بتایا کہ 'تخت بھائی یونیسکو کی ورلڈ ہیریٹیج سائٹ ہے اور جہاں سے سائٹ ختم ہو جاتی ہے، اس کے بعد اردگرد 200 میٹر تک بفرزون کہلاتا ہے اور اس بفرزون میں کھدائی کے لیے لائسنس جاری کیا جاتا ہے جو کہ ریسرچ کرنے والے یونیورسٹی کے طلبہ یا آرکیالوجسٹس کو دیا جاتا ہے جبکہ بفرزون ختم ہونے کے بعد تعمیراتی کھدائی کے لیے محکمہ آثار قدیمہ اینڈ میوزیم سے باقاعدہ طور پر این اوسی جاری کیا جاتا ہے اور این اوسی نہ ہونے پر کھدائی کرنے والے کے خلاف کاروائی کی جاتی ہے۔'

انہوں نے مزید بتایا کہ 'تخت بھائی کے ساتھ سری بہلول بھی ورلڈ ہیریٹیج سائٹ ہے لیکن وہاں پر لوگوں نے گھر تعمیر کر رکھے ہیں۔ سری بہلول بدھسٹ زمانے میں بھی شہر تھا اور اب حکومت کا بھی منصوبہ ہے کہ سری بہلول میں آباد لوگوں کے لیے دوسری جگہ کا بندوبست کرکے اس شہر کو آثار قدیمہ سائٹ کے لیے خالی کروایا جائے۔'

'مجسمہ اراداتاً نہیں توڑا'

دوسری جانب بدھا مجسمے کو توڑنے کے مقدمے میں نامزد ملزم اور کھدائی کروانے والے ٹھیکدار قمر زمان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ گرفتاری کے بعد انہوں اپنے دیگر تین مزدوروں کے ساتھ جیل میں دس دن گزارے اور بعد میں ایک ایک لاکھ روپے کے مچلکوں کے عوض ضمانت پر جیل سے رہا ہوئے اور اب ان کے خلاف عدالت میں کیس چل رہا ہے۔

 قمر زمان نے بتایا کہ 'اس دن وہ نواب زادہ جمال خان کے لوکاٹ کے باغ کے ساتھ برساتی نالے کی تعمیر کر رہے تھے کہ کھدائی کے دوران مزدورں کو ایک کالا بڑا ہموار پتھر نظر آیا، جس کو مزدوروں نے توڑا۔ ہم نہیں پہچان سکے کہ یہ بت ہے لیکن وہاں ایک دوسرے شخص نے ہمیں بتایا کہ یہ مجسمہ ہے جس پر ہم اس کو الٹا کیا تو اس کا نہ تو سر تھا اور نہ ہی ہاتھ پاؤں لیکن بدن پر کپڑوں کے نشان موجود تھے، تو جب بت مکمل نہ ہو تو ہمارے خیال میں اس کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔'

انہوں نے مزید بتایا کہ 'اس وقت نہ کسی مولانا نے مزدوروں کو بت توڑنے کے لیے کہا اور نہ ہم نے ارادتاً یہ فیصلہ کیا کہ اس کو توڑا جائے۔ صرف کام اور جگہ خالی کرنے کی غرض سے اس کالے بڑے پتھر کو توڑا گیا اور بعد میں، میں خود پولیس کے پاس گیا تھا، مجھے کسی نے گرفتار بھی نہیں کیا تھا۔'

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

قمرزمان نےکہا کہ 'اس وقت بھی کامران گاؤں کی دوسری جانب میرے مزدور تعمیراتی کھدائی کا کام کر رہے ہیں لیکن اس طرح کا واقعہ پہلی مرتبہ ہوا ہے۔'

مقدمے میں نامزد ٹھیکدار نے مزید کہا کہ 'ابھی تک ہمارا موقف نہ میڈیا اور نہ ہی سوشل میڈیا پر لیا گیا جبکہ لوگوں نے اپنی طرف سے مختلف قسم کی باتیں اور افواہیں پھیلادیں۔'

اس کیس کی تفتیش کرنے والے پولیس آفیسر جمشید خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ بدھا کے مجسمے کے ٹکڑے اب پولیس تھانہ ساڑو شاہ کے مال خانے میں محفوظ ہیں جو کہ عدالت کے ریکارڈ پر ہیں اور اگر محکمہ آثار قدیمہ والے ان ٹکڑوں کو اپنے قبضے میں لینا چاہیں گے تو بذریعہ عدالت انہیں ان کے حوالے کیا جائے گا۔

انہوں نے مزید بتایا کہ 'کیس کا ٹرائل اب عدالت میں چل رہا ہے اور ملزمان مانت پر رہا ہوچکے ہیں، اگر جرم ثابت ہوگیا تو آثار قدیمہ کے قانون کے تحت پانچ لاکھ تک جرمانہ یا دس سال قید ہوسکتی ہے۔'

دوسری جانب اسسٹنٹ ریسرچ آفیسر اور مردان میوزیم کے انچارج جہانگیر خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو تایا کہ پچھلے چار سالوں میں ضلع مردان میں اب تک آثار قدیمہ کی مختلف سائٹس پر غیرقانونی کھدائی کرنے پر دس مقدمات درج ہوچکے ہیں، جس میں لوگوں پر جرمانہ بھی کیا جاچکا ہے اور کئی کا اب بھی ٹرائل چل رہا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اب محکمہ آثار قدیمہ اینڈ میوزیم نے ایک شعبہ اینٹیکویٹی ٹریفک کنٹرول برانچ کے نام سے بنا دیا ہے، جس کا صرف یہی کام ہوگا کہ جہاں پر غیرقانی کھدائی ہو رہی ہو، ان کے خلاف کارروائی کرے اور آثار قدیمہ کے نوادرات کی ٹریفکنگ کی روک تھام کرے۔

جہانگیر خان نے مزید بتایا کہ 'یہاں جو آثار ہیں، اس کی تاریخ 1800 سے 2200 سال تک پرانی ہے۔ چارسدہ، مردان اور سوات بدھسٹ کے دارلخلافے تھے۔ یہ تاریخی آثار ہیں اور نئی نسل کے لیے اس تاریخ کو زندہ رکھنے کے لیے ہم اس کی حفاظت کر رہے ہیں۔'

 کھدائی کے دوران مزدوروں کے ہاتھوں ٹکڑے ہونے والا بدھا کا مجسمہ بھی 1800 سال پہلے کا تھا۔

جہانگیر خان نے مزید بتایا کہ ان تاریخی علاقوں میں جو کوئی بھی کھدائی کرے گا تو انہیں یونیسکو کے رولز کے مطابق محکمہ آثار قدیمہ سے این اوس سی لینا پڑے گا۔

'اب محکمہ آثار قدیمہ کی جانب سے حکومت کے ساتھ بات چل رہی کہ جتنی بھی آثارقدیمہ کی سائٹس ہیں، ان کو لوگوں سے خرید لیا جائے اور انہیں ریاست کی ملکیت قرار دیا جائے جبکہ ورلڈ ہیریٹیج سائٹ سری بہلول کے حوالے بھی بات چل رہی کہ اس کو لوگوں سے خالی کروا کے وہاں رہائش پذیر لوگوں کو دوسری جگہ منتقل کیا جائے۔'

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تحقیق