لکڑیوں سے بنی قدیم تہذیب کی شاہکار عمارت کے چھوٹے سے کچن میں باچا خان بیٹھے انگور سے جوس نکال رہے ہیں۔
ارد گرد کچن کے برتن، مصالحے اور دیگر سامان نظر آتے ہیں جبکہ باچا کان سٹیل سے بنے ایک برتن میں دونوں ہاتھوں سے انگور کا رس نکال رہے ہیں۔نوجوان باچا خان کا تعلق خیبر پختونخوا کے ضلع چترال کے کیلاش قبیلے سے ہے، جن کے آباؤ اجداد اور اب وہ خود لوکل وائن بنانے کے ماہر ہیں۔
اسی گھر کے ایک کمرے میں سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے ساتھ باچا کی تصاویر بھی موجود ہیں جو اس وقت بنائی گئی تھیں جب سابق صدر نے ان کے گھر کا دورہ کیا تھا۔ انہوں نے انگور نچوڑتے ہوئے بتایا کہ ’یہی خالص جوس ہوتا ہے جس کو ہم نکال کر ایک بوتل میں رکھتے ہیں اور تین چار سال بعد اس کو استعمال کرتے ہیں۔‘
انگور کے اس جوس کو کیلاشی زبان میں ’ڈا‘ اور چترالی میں ’دروچھوع‘ (انگور کا پانی) کہتے ہیں جبکہ باچا کے مطابق سیاح جب یہاں آتے ہیں تو وہ اسے وائن کہتے ہیں۔ باچا نے اس کے بنانے کی ترکیب کے بارے میں انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ سب سے پہلے ہاتھوں کو دھونے کے بعد ایک برتن میں انگور لے کر اس کو پانی سے صاف کیا جاتا ہے۔
’اس کے بعد انگور کو دونوں ہاتھوں سے نچوڑا جاتا ہے تاکہ اس کا جوس نکل سکے اور جوس نکالنے کے بعد اس کو کسی بھی ڈیڑھ لیٹر بوتل میں ڈال دیا جاتا ہے۔‘
باچا بتاتے ہیں کہ ’بوتل کا ڈھکن تھوڑا ہلکا بند کرتے ہیں تاکہ ہوا اس میں جا سکے۔ تین چار سال تک اس کو رکھنے کے بعد اس کو استعمال کیا جاتا ہے۔‘ اس مشروب کے استعمال کے حوالے سے انہوں نے کہا ’ہمارے سال میں تین بڑے میلے ہوتے ہیں جس کو ’چلم جوشی، اوچال اور ایک کو ’چوموس‘ کہا جاتا ہے جس میں ہم سب اس کو پیتے ہیں۔‘
’جوشی تہوار مئی، اوچال اگست جبکہ چوموس دسمبر کے مہینے میں منایا جاتا ہے جس میں نئے سال کو خوش آمدید کہا جاتا ہے۔ اس موقعے پر خواتین سمیت بچے اور بوڑھے بھی پیتے ہیں۔ یہ ہمارے کلچر کا ایک حصہ ہے اور اس کے پینے پر کوئی پابندی نہیں۔‘
باچا نے بتایا کہ کیلاش کے تقریباً 80 گھرانوں میں یہ (وائن) بنائی جاتی ہے اور اس سے بعض گھرانوں کو اچھا خاصہ منافع بھی ہوتا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ ڈیڑھ بوتل وائن کی قیمت 1500روپے سے لے کر 3500 روپے تک ہوتی ہے اور جو جتنی پرانی ہو اتنی مہنگی ہوتی ہے۔ ’ہم اس میں کسی قسم کا کیمیکل نہیں ڈالتے، یہ خالص انگور کا جوس ہوتا ہے جبکہ دوسری وائنز میں کیمیکل ڈالا جاتا ہے۔‘
کیا قانونی طور پر کیلاش میں وائن بنانے کی اجازت ہے؟
پاکستان میں کسی بھی قسم کی شراب نوشی قانوناً جرم ہے تاہم غیر مسلموں کو اس کے پینے کی اجازت ہے۔ چترال ضلعی انتظامیہ کے ایک اہلکار نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ کیلاش برادری کی زیادہ تر آبادی غیر مسلم ہے لہٰذا انہیں وائن بنانے کی اجازت ہے اور وہ خود اس کو پی بھی سکتے ہیں۔
تاہم اہلکار کے مطابق کیلاش کے لوگوں پر اس کی کسی مسلم سیاح کو فروخت یا ملک کے کسی دوسرے حصے میں لے جانے پر پابندی ہے اور پولیس ان کے خلاف قانونی کارروائی کا حق محفوظ رکھتی ہے۔
کیلاش قبیلے کے لوگ کون ہیں؟
کیلاش وادی چترال کے مرکزی بازار سے تقریباً دو گھنٹے کی مسافت پر واقع ہے۔ وادی کی طرف جانے والی سڑک خستہ حالی کا شکار ہے اور عام گاڑی پر سفر کرنا نہایت ہی مشکل ہے تاہم فور ویل گاڑی میں سفر کیا جا سکتا ہے۔ یہ وادی تین علاقوں پر مشتمل ہے جس میں بمبوریت، رمبور اور بیریر شامل ہیں جہاں کیلاش برادری سے تعلق رکھنے والے افراد آباد ہیں۔
یہ برادری پاکستان کی سب سے پرانی تہذیب سمجھی جاتی ہے جن کے اپنے رسم و رواج، زبان اور مختلف قسم کی طرز زندگی ہے۔
دسمبر میں ان کے بڑے مذہبی تہوار منعقد کیے جاتے ہیں جہاں پاکستان سمیت دنیا بھر سے سیاح اسی وادی کا رخ کرتے ہیں۔ انشینٹ ہسٹری انسائکلوپیڈیا کے مطابق کیلاش لوگوں کے بارے میں مخلتف مفروضے موجود ہیں۔ یہ کہاں سے اور کیسے چترال میں آباد ہوئے تاہم دو مفروضے ایسے ہیں جس سے زیادہ تقویت ملتی ہے۔
اس میں ایک یہ کہ کیلاش کے لوگ انڈو آرین اور دوسرا کہ اس قبیلے کا تعلق یونان سے ہے۔ اسی انسائکلوپیڈیا کے مطابق A personal Narrative of a Journey to the source of River Oxus by the route of the Indus, Kabul and Badakhshan’ نامی کتاب میں لکھا گیا ہے کہ کیلاش کے لوگوں کا تعلق تاجک اور بدخشان سے ہے۔
تاہم ایک اور مفروضے میں یہ لکھا گیا ہے کہ یہ لوگ سب سے پہلے تائسم نامی ایک جگہ میں مقیم تھے تاہم ابھی تک کسی کو یہ پتہ نہیں کہ یہ جگہ کہاں پر ہے اور اسی جگہ سے ان کے آباؤ اجداد میں سے ایک شالک شاہ اپنی آرمی کو لے کر چترال میں داخل ہوئے تھے۔
چترال میں داخلے کے بعد شالک شاہ نے چترال کو اپنے چار بیٹوں کے مابین تقسیم کیا تھا اور اس پر حکمرانی کرتے تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اسی کے حوالے سے کیلاش کی معروف شخصیت شہزادہ خان نے بتایا کہ ہزاروں سال پہلے چترال پر کیلاش کے لوگ حکمرانی کرتے تھے۔ ایک تحقیقی مقاملے میں لکھا گیا ہے کہ حالیہ دنوں میں کیلاش کے لوگوں کے ڈی این اے ٹیسٹ سے یہ پتہ چلا کہ ان کا ڈی این اے آرین سے ملتا ہے اور اس بات پر بہت لوگ متفق ہیں کہ یہ لوگ افغانستان آکر آباد ہوئے تھے۔
یونیورسٹی کالج کارک کے ایک تحقیقی مقاملے کے مطابق ایک مفروضہ یہ ہے کہ کیلاش کے لوگ دوسری صدی میں افغانستان سے چترال منتقل ہوئے اور دسویں صدی سے لے کر 14ویں صدی تک چترال پر حکمرانی کرتے رہے، تاہم بعد میں اس میں بہت سے لوگوں نے اسلام قبول کیا۔
چترال کے رہائشی اور سماجی کارکن نور شاہدین نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ افغانستان میں رہنے والے کیلاش لوگوں کو ’سور (سرخ) کافر‘ کہا جاتا تھا اور وہاں پر مقیم تقریباً سارے کیلاشی لوگ اسلام قبول کر چکے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ابھی تقریباً چار ہزار کے قریب کیلاش سے تعلق رکھنے والے لوگ اس وادی میں آباد ہیں جو اپنی تہذیب کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔