’امریکی جنگوں سے پونے چار کروڑ لوگ بےگھر ہوئے‘

نائن الیون کے بعد امریکی جنگوں کے باعث افغانستان، عراق، پاکستان، شام، صومالیہ اور شام شدید متاثر ہوئے۔

پناہ گزین اٹلی کے ساحل کے قریب (اے ایف پی)

امریکہ کی براؤن یونیورسٹی کی ایک رپورٹ کے مطابق نائن الیون حملوں کے بعد سے امریکہ کی چھیڑی گئی جنگوں کے باعث اب تک دنیا بھر میں کم از کم تین کروڑ 70 لاکھ لوگ بےگھر ہوئے ہیں۔

تحقیق کاروں نے بتایا کہ یہ بھی ایک ’محتاط‘ اندازہ ہے کیونکہ ان بےگھر ہونے والوں کی اصل تعداد چار کروڑ 80 لاکھ سے پانچ کروڑ 90 لاکھ تک ہو سکتی ہے۔ اس رپورٹ کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ اپنی نوعیت کی پہلی رپورٹ ہے جس میں امریکہ کی جانب سے دنیا بھر میں جنگوں میں ملوث ہونے کے بےگھر آبادیوں پر ہونے والے اثر کو ناپا گیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق ان جنگوں کے باعث صرف افغانستان اور عراق نہیں بلکہ پاکستان، یمن، صومالیہ، فلپائن، لیبیا اور شام میں بھی دسیوں لاکھ لوگ بےگھر ہوئے۔ اگرچہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان میں سے ڈھائی کروڑ سے زیادہ لوگ واپس اپنے گھروں میں آ گئے ہیں، تحقیق کاروں نے کہا: ’واپسی سے بےگھری کا صدمہ ختم نہیں ہوتا، نہ ہی اس کا مطلب ہے کہ یہ بےگھر لوگ اپنے اصل گھروں یا محفوظ زندگی کی طرف لوٹے ہیں۔‘

منگل کو شائع ہونے والی اس رپورٹ کا عنوان ’پناہ گزین سازی: امریکہ کی نائن الیون کے بعد جنگوں سے پیدا ہونے والی بےگھری،‘ ہے۔ اس کے مصنفین میں ڈیوڈ وائن، کالا کافمین، کیٹیلینا خاوری، میڈیسن لوواچ، ہیلن بش، ریچل لوڈک اور جینیفر واک اپ شامل ہیں۔

امریکہ نے 2001 میں القاعدہ سے منسلک دہشت گرد حملوں کے جواب میں ’دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ‘ شروع کر کے کم از کم 24 ملکوں میں فوجیں بھیجی تھیں اور وہ تقریباً دو دہائیوں سے مسلسل عالمی حالتِ جنگ میں ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

رپورٹ میں لکھا ہے: ’تاریخ میں ہونے والی دوسری جنگوں کی طرح نائن الیون کے بعد چھیڑی جانے والی جنگوں نے دسیوں لاکھ لوگوں کو، جن کی بڑی اکثریت عام لوگوں پر مشتمل ہے، اپنی جان کے لالے پڑ گئے اور وہ تحفظ کی خاطر نکل بھاگے۔ دسیوں لاکھ لوگ فضائی حملوں، بموں، توپ کے گولوں، ڈرون حملوں، بندوق کی لڑائیوں اور ریپ کی وجہ سے بھاگے۔

'لوگ اپنے گھروں، محلوں، ہسپتالوں، سکولوں، نوکریوں اور مقامی خوراک اور پانی کی ذرائع کی تباہی کی وجہ سے بھاگے۔ وہ امریکی جنگوں، خاص طور پر افغانستان اور عراق میں چھیڑی جانے والی جنگوں کی وجہ سے زبردستی بےدخلی، قتل کی دھمکیوں اور بڑے پیمانے پر ہونے والی نسل کشی سے فرار ہوئے۔‘

جب امریکہ دنیا بھر میں فوجی کارروائیاں کر رہا تھا تو خود امریکہ میں پناہ گزینوں کے بارے میں رویہ سخت متنازع رہا۔ اگرچہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ 2016 میں جزوی طور پر مسلمانوں کو ملک میں آنے سے روکنے کے بیانات کی وجہ سے جیتے، رائے عامہ کے ملک گیر جائزوں سے پتہ چلتا ہے کہ امریکی عوام کی اکثریت پناہ گزینوں کو آنے دینے کے حق میں ہے اور ان کا خیال ہے کہ ترک وطن کر کے امریکہ آنے والے لوگوں کی وجہ سے امریکہ مضبوط ہوا ہے۔

نئی رپورٹ کے مطابق جب امریکہ نے 2002 میں صومالیہ میں فوجیں بھیجیں تو ملک کی تقریباً آدھی آبادی (46 فیصد) بےگھر ہو گئی۔امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کو ایک بیان میں رپورٹ کے ایک شریک مصنف ڈیوڈ وائن نے کہا: ’اس سے پتہ چلتا ہے کہ ان ملکوں میں امریکی مداخلت ہولناک حد تک قیامت خیز اور ہولناک حد تک تباہ کن تھی جس کا میرا نہیں خیال کہ بہت سے امریکیوں کو اندازہ ہے، جن میں میں خود بھی شامل ہوں۔ ان لوگوں نے اس کا ہلکا سا بھی ادراک یا اس سے نمٹنے کی کوشش نہیں کی۔‘

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا