افغان طالبان کے پہلے پی ایچ ڈی ڈاکٹر اور ترجمان

ڈاکٹر نعیم وردک کو حال ہی میں طالبان مذاکراتی ٹیم میں تبدیلیوں کے بعد سہیل شاہین کی جگہ ترجمان مقرر کیا گیا ہے۔ اس سے پہلے وہ قطر سیاسی دفتر کا حصہ رہے ہیں۔

ڈاکٹر محمد نعیم وردک  علمی اور سنجیدہ مزاج کے مالک سمجھے جاتے ہیں(ٹوئٹر)

افغان طالبان نے قطر میں اپنے سیاسی دفتر کی ترجمانی کے لیے ایک ایسے شخص کا انتخاب کیا ہے جنہوں نے انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی، اسلام آباد سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔

ڈاکٹر محمد نعیم وردک کو حال ہی میں طالبان کی مذاکراتی ٹیم میں تبدیلیوں کے بعد سہیل شاہین کی جگہ ترجمان مقرر کیا گیا ہے، اس سے پہلے بھی وہ قطر سیاسی دفتر کا حصہ رہے ہیں۔ بعض افغان ذرائع کا کہنا ہے کہ سہیل شاہین کو متنازع ٹویٹ کی وجہ سے ان کے عہدے سے ہٹایا گیا تاہم طالبان نے تاحال اس ضمن میں کوئی وضاحت جاری نہیں کی۔

ڈاکٹر محمد نعیم کا تعلق بنیادی طورپر افغان صوبہ وردک کے ضلع چک سے بتایا جاتا ہے۔ انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم گاؤں چک کے ایک مقامی مدرسے سے حاصل کی، جس کے بعد انہوں نے ننگرہار یونیورسٹی جلال آباد میں داخلہ لیا اور بی اے کی سند حاصل کی۔ 2008 میں نعیم وردک اعلیٰ تعلیم کی حصول کے لیے پاکستان آئے اور اسلام آباد کی بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا، جہاں سے انہوں نے دوسال کے بعد عربی زبان میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی۔

تاہم انہوں نے تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا اور بعد میں اسی یونیورسٹی سے عربی علوم اور ادب میں پی ایچ ڈی کی ڈگری مکمل کی۔ افغان طالبان کے بیشتر رہنما جامعہ حقانیہ سے فارغ التحصیل ہیں۔ اسی طرح ڈاکٹر نعیم بھی مختصر عرصے تک جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک میں زیرطتعلیم رہے اور یہاں سے انہوں نے حدیث اور فقہ کے علوم حاصل کیے۔ ان کی عمر 40 سے 45 سال کے درمیان بتائی جاتی ہے۔

قطر سیاسی دفتر کے سابق ترجمان سہیل شاہین نے بھی تصدیق کی ہے کہ ان کی جگہ تعینات ہونے والے نئے ترجمان ڈاکٹر نعیم نے بین الاقوامی اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد سے عربی زبان میں پی ایچ ڈی کی تعلیم حاصل کر رکھی ہے۔

ڈاکٹر نعیم زمانہ طالب علمی میں طالبان تحریک کا باقاعدہ طورپر حصہ نہیں رہے اور نہ کبھی جنگوں میں حصہ لیا لیکن نظریاتی طور پر وہ طالبان تحریک کو پسند کیا کرتے تھے۔ 2013 میں جب قطر میں پہلی مرتبہ طالبان کا سیاسی دفتر کھولاگیا تو انہیں وہاں ترجمان کی حیثیت سے مقرر کیا گیا۔

قطر سیاسی دفتر کے قیام کے ابتدائی دنوں میں ڈاکٹر نعیم اور سہیل شاہین دونوں بیک وقت ترجمانی کی فرائض سرانجام دیتے رہے لیکن کچھ عرصے کے بعد سہیل شاہین کو مستقل طورپر ترجمان مقرر کر دیا گیا تھا۔ کابل میں موجود بعض سینیئر افغان صحافیوں کا کہنا ہے کہ 2013 میں جب قطر میں سیاسی دفتر قائم کیا جا رہا تھا تو اس وقت طالبان کو ایسے قابل اور لائق افراد کی تلاش تھی جنہیں عربی سمیت مختلف زبانوں پر دسترس حاصل ہو۔

انہوں نے کہا کہ چونکہ ڈاکٹر نعیم وردک پی ایچ ڈی کر چکے تھے اور عربی زبان پر بھی انہیں خاصا عبور حاصل تھا لہٰذا اس دوران کوئی طالبان کمانڈر انہیں اپنے ساتھ دوحہ لے گئے جہاں بعد میں وہ باقاعدہ طورپر طالبان تحریک کا حصہ بن گئے۔

بعض افغان ذرائع کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر نعیم کا تعلق قطر سیاسی دفتر کے ایک سابق طالبان رہنما طیب آغا کے گروپ سے رہا ہے، لیکن 2015 میں طیب آغا کو قطر دفتر سے بعض وجوہات کی بنا پر ہٹا دیا گیا تھا۔ یہاں تک کہا جاتا ہے کہ ڈاکٹرنعیم کو بھی اسی سال طیب آغا کے ساتھ قطر دفتر سے برطرف کیا گیا لیکن 2018 میں انہیں دوبارہ قطر آفس کا حصہ بنایا گیا جس کے بعد سے وہ بدستور وہاں مقیم ہیں۔

ڈاکٹر نعیم کے والد جان آغا کے بارے میں زیادہ معلومات میسر نہیں۔ ان کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ وہ روس کے خلاف جنگ میں ہلاک ہوگئے تھے، تاہم وہ کوئی بڑے سیاسی رہنما یا کمانڈر نہیں تھے۔ ڈاکٹر نعیم سے ملاقات کرنے والے بیشتر افغان صحافیوں کا کہنا ہے کہ بنیادی طور پر وہ علمی اور سنجیدہ مزاج کے مالک سمجھے جاتے ہیں۔

ڈاکٹر نعیم کے ساتھ اسلامک یونیورسٹی میں زیر تعلیم رہنے والے افغان خبررساں ادارے اے آئی پی سے منسلک صحافی محمد اسمعیل عندلیپ کا کہنا ہے کہ وہ ان سے کلاس میں تو سینیئر تھے لیکن ان سے اکثر اوقات یونیورسٹی میں ملاقاتیں ہوا کرتی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر نعیم خالصتاً اسلامی ذہن اور علمی مزاج کے مالک ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ وہ حافظ قرآن بھی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’وہ یونیورسٹی میں پگڑی باندھ کر آیا کرتے تھے اور اسی کے ساتھ کلاس روم میں بھی جایا کرتے تھے۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ وہ پگڑی کے بغیر یونیورسٹی آئے ہوں۔‘

بعض افغان ذرائع کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر نعیم کو2011 میں افغان حکومت نے گرفتار کیا تھا جس کے بعد وہ چھ ماہ تک پابند سلاسل رہے۔ تاہم اس وقت وہ باقاعدہ طور پر طالبان تحریک کا حصہ نہیں تھے بلکہ شدت پسندوں کے ہمدرد کے طورپر حراست میں لیے گئے تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ادھر معلوم ہوا ہے کہ سہیل شاہین کو ایک متنازع ٹویٹ کی وجہ سے ان کے عہدے سے ہٹایا گیا۔ تاہم طالبان نے ابھی تک ان کو ہٹانے کی کوئی وجہ نہیں بتائی۔ افغان ذرائع کے مطابق سہیل شاہین نے کچھ عرصہ قبل افغان حکومت کے مذاکراتی ٹیم کے کسی رکن کے حوالے سے کوئی ٹویٹ کی تھی جس پر سیاسی دفتر کے رہنماؤں نے شدید ناراضی کا اظہار کیا تھا۔

طالبان تحریک پر نظر رکھنے والے سینیئر صحافی سمیع یوسفزئی کا کہنا ہے کہ بظاہر لگتا ہے کہ کوئی وجہ ضرور ہے جس کی وجہ سے ترجمان کی تبدیلی ہوئی ہے لیکن طالبان اس پر بات نہیں کر رہے۔ انہوں نے کہا کہ سہیل شاہین نے ایک لمبے عرصے تک ترجمانی کے فرائض سرانجام دیے جس کی وجہ سے ان کی تمام دنیا کے ذرائع ابلاغ سے اچھے تعلقات قائم ہوگئے تھے۔

انہیں پانچ زبانوں پر دسترس حاصل تھا جس سے طالبان تحریک کا پیغام اچھے طریقے سے دنیا کو پہنچ رہا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ایک اہم مرحلے پر جب بین الاافغان مذاکرات کے آغاز کے لیے تمام تر تیاریاں مکمل کی جا رہی ہیں ایسے میں ترجمان کی تبدیلی ان کی سمجھ سے بالاتر ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا