کراچی: مقدمہ درج ہونے کے بعد صحافی پولیس تحویل سے 'لاپتہ'

کراچی پولیس کے ایک ایس ایس پی نے میڈیا سے گفتگو میں صحافی بلال فاروقی کو حراست میں لینے کی تصدیق کی، لیکن اب بلال کا کچھ پتہ نہیں چل رہا کہ وہ کہاں ہیں۔

بلال فاروقی متعدد  انگریزی اخبارات سے منسلک رہے ہیں (سوشل میڈیا)

کراچی میں سینیئر صحافی بلال فاروقی کے ساتھی سمیر مندھرونے کہا ہے کہ جمعے کوسادہ کپڑوں میں ملبوس کچھ افراد پولیس اہلکاروں کے ہمراہ آئے اور بلال کو گھر سے اٹھا کر لے گئے، جس کے بعد ان کا کچھ اتا پتا نہیں چل رہا۔

انگریزی روزنامے ایکسپریس ٹربیون  کراچی سےمنسلک صحافی سمیر مندھرو نے بتایا کہ واقعے کے بعد انہیں معلوم ہوا کہ بلال پر مقدمہ درج ہوا ہے لیکن جب تھانے پہنچنے پر پتہ چلا کہ 'بلال ایف آئی آر میں نامزد ہونے کے باوجود پولیس کی تحویل سے لاپتہ ہوگئے ہیں۔' 

سمیر نے بلال کی اہلیہ کے حوالے سے بتایا کہ جمعے کی دوپہر  سادہ کپڑوں میں ملبوس چند افراد پولیس اہلکاروں کے ساتھ گھر آئے اور ان کے شوہر کو اٹھاکر لے گئے۔ 'بعد میں اطلاع ملی کہ انھیں ڈیفنس تھانے کی پولیس نے گرفتار کیا ہے اور ان پر مقدمہ بھی دائر ہے۔ ہم نےتھانے پہنچ کروہاں موجود ہیڈ محرر سے درخواست کی کہ ہمیں بلال سے ملوایا جائے، توانہوں نے بتایا کہ بلال تھانے میں نہیں۔ ہمارے پوچھنے پر ہیڈ محرر نے کہا یہ حساس کیس ہے، آپ تھانے سے چلے جائیں۔' 

سمیر کے مطابق: 'اس کا مطلب ہے کہ ایف آئی آر درج ہونے کے باجود وہ پولیس تحویل سے لاپتہ ہوگئے ہیں۔ پولیس نے ایف آئی آر میں بلال فاروقی کے گھر کا جو پتہ لکھا ہے، وہ بھی غلط ہے۔' 

بلال کی اہلیہ نے صحافیوں کو بتایا کہ 'اہلکار انہیں  لے جاتے وقت  ان کا موبائل فون بھی ساتھ لے گئے، بعد میں ڈیفنس تھانے سے فون آیا کہ ان پر ایف آئی آر درج کی گئی ہے، جس کی تھوڑی دیر بعد پولیس اہلکار آئے اور میرافون بھی لےگئے۔'  واضح رہے کہ سینیئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس، جنوبی کراچی شیراز نذیر نے مقامی صحافیوں سے بات کرتے ہوئے تصدیق کی تھی کہ ڈیفنس پولیس نے بلال کو حراست میں لیا ہے۔

کراچی کے ڈیفنس تھانے کی پولیس نے بلال پر لانڈھی صنعتی زون کی ایک فیکٹری کے ملازم جاوید خان کی مدیت میں نو ستمبر کو مقدمہ درج کیا۔ مشین آپریٹر جاوید خان نے ایف آئی میں موقف اختیار کیا کہ وہ نو ستمبر کو کسی کام سے ڈیفنس فیز ٹو میں تھےتو انہوں نے اپنے موبائل فون پر دیکھا کہ بلال فاروقی نامی صارف نے اپنے فیس بک اور ٹوئٹر پر انتہائی اشتعال انگیز پوسٹس کی ہوئی تھیں، جس میں پاکستان آرمی کے مخالف اور مذہبی منافرت کا مواد شامل تھا۔ 

پولیس نے مقدمے میں پاکستان پینل کوڈ کی دفعات 500 اور 505 اور پریوینشن آف الیکٹرانک کرائم کی دفعات 11 اور 20 شامل کی ہیں۔ ہائی کورٹ کے وکیل زبیر احمد ابڑو کے مطابق پی پی سی کی دفعہ 500 قابل ضمانت جبکہ 505 ناقابل ضمانت ہے۔

پی پی سی کی دفعہ 500 کسی کو بدنامی کرنا جبکہ دفعہ 505 ایسا بیان دینا جس سے فساد کا خدشہ ہو، سے متعلق ہے اور دفعہ 505 کی سات سال تک سزا ہوسکتی ہے۔ اسی طرح پریوینشن آف الیکٹرانک کرائم کی دفعات  11 (نفرت انگیز تقریر) جس کی سزا سات سال اور دفعہ 20 (کسی کی ساکھ کو نقصان پہنچانا) کی سزا تین سال یا دس لاکھ جرمانہ ہوسکتی ہے۔ 

41 سالہ بلال کراچی کے سینیئر صحافیوں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ وہ زیادہ تر انگریزی اخبارات سے منسلک رہے۔ انھوں نے ریجنل ٹائمز، ڈیلی ٹائمز، دی نیوز، پاکستان ٹوڈے، سما ٹی وی کے انگریزی آن لائن ایڈیشن اور ایکسپریس گروپ کی جانب سے شروع کیے گئے انگریزی چینل ٹربیون 24/7 کے ساتھ  بھی کام کیا۔

وہ ان اخبارات میں سینیئر سب ایڈیٹر اور نیوز ایڈیٹر کے عہدوں پر رہے۔ اس وقت وہ انگریزی اخبار ایکسپریس ٹربیون میں نیشنل ڈیسک پر ادارت کررہے ہیں۔  بلال فاروقی 2014 میں امریکی ادارے ہنری فاؤنڈیشن کی 'ہنری لوئس فیلوشپ' کے لیے بھی منتخب ہوئے تھے۔  

کراچی پریس کلب کے صدر محمد امتیاز خان فاران، سیکریٹری ارمان صابر اور ارکان گورننگ باڈی نے پولیس کی جانب سے کراچی پریس کلب کے ممبراورصحافی بلال فاروقی کی گرفتاری اور 'جھوٹا و من گھڑت' مقدمہ درج کرنے کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔
جمعے کو جاری ایک بیان میں کراچی پریس کلب کے عہدے داروں نے کہا کہ 'حکومت صحافیوں کی معاشی زندگی تنگ کرنے کے بعد آزادی اظہار رائے پر قدغن لگانے کے لیے نئے نئے حربے استعمال کررہی ہے۔ بلال فاروقی کی بلاوجوازگرفتاری اور مقدمہ اسی سلسلے کی کڑی ہے۔' انہوں نے بلال پر 'جھوٹا' مقدمہ واپس لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ انہیں فوری طور پر رہا کیا جائے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان