امن مذاکرات کے دوران ہی افغانستان میں 30 سے زیادہ ہلاکتیں

افغان حکام کے مطابق قندوز میں فوجی اڈوں پہ حملے کے بعد طالبان پر کیے گئے فضائی حملے میں 30 سے زائد طالبان ہلاک ہوئے جب کہ طالبان کا موقف ہے کہ حملے میں 24 سے زائد بے گناہ شہری مارے گئے۔

(فائل فوٹو: اے ایف پی)

افغان حکام کے مطابق ملکی فضائیہ نے ہفتے کو طالبان کے ٹھکانوں پر کئی حملے کیے جن میں 30 سے زیادہ طالبان ہلاک  ہو گئے۔ دوسری جانب افغانستان کے صدر اشرف غنی نے ایک بار پھر جنگ بندی پر زور دیا ہے۔

طالبان کا موقف ہے کہ افغان فضائیہ کے حملوں میں تقریباً 24 شہری مارے گئے جن میں عورتیں اور بچے شامل ہیں۔ تازہ حملے میں بڑے پیمانے پر ہلاکتیں ایسے وقت ہوئی ہیں جب قطر میں طالبان اور افغان حکومت کے درمیان امن مذاکرات جاری ہیں۔

افغان وزارت دفاع نے ٹوئٹر پر ایک بیان میں کہا: 'آج صبح طالبان جنگجوؤں نے صوبہ قندوز کے علاقے خان آباد میں افغان فوج کے ٹھکانوں پر حملہ کیا۔ فوج نے فعال دفاعی حکمت عملی کے مطابق اس حملے کو روکا۔ کارروائی میں 30 سے زیادہ طالبان ہلاک ہو گئے جن میں دو کمانڈر بھی شامل ہیں۔'

دوسری طرف طالبان نے اس بات کی تردید کی ہے کہ افغان فضائیہ کے حملے میں ان کے جنگجو نشانہ بنے بلکہ ان کا کہنا تھا کہ حملے میں 23 شہری مارے گئے۔ افغان وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ وہ طالبان کے دعوے سے آگاہ ہے اور اس کی تحقیقات کی جائیں گی۔

مقامی ہسپتال کے ڈائریکٹر محمد نعیم منگل نے اے ایف پی کو بتایا ہے کہ تین ہلاک اور تین زخمی ہونے والے شہریوں کو ہسپتال لایا گیا ہے۔

یہ  جھڑپ صدر اشرف غنی کے اس بیان کے تھوڑی دیر بعد ہوئی جس میں انہوں نے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر جنگ بندی پر ایک بار پھر زور دیا  تاکہ افغان عوام کو تحفظ فراہم کی جا سکے نیز باوقار اور پائیدار امن کے لیے تشدد اور دہشت گردی کے واقعات روکے جا سکیں۔

عسکریت پسندوں نے اب تک ایسی درخواستوں کو نظرانداز کیا ہے۔ اگرچہ انہوں نے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ایک ہفتے پہلے شروع ہونے والے مذاکرات سے قبل اس سال یک طرفہ طور پر دو مختصر اور الگ جنگ بندیوں کا مطالبہ کیا تھا۔

افغان حکومت اور طالبان دوحہ مذاکرات کے ایجنڈے پر ابھی تک فیصلہ نہیں کر سکے جس کی وجہ سے مذاکرات کا عمل سست روی کا شکار ہے۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے اس سے پہلے جمعے کو امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ نے  طالبان کے 'ٹف' اور 'سمارٹ' ہونے کو سراہتے ہوئے کہا تھا کہ امریکہ افغان عسکریت پسند گروپ کے ساتھ معاملات کو اچھی طرح نمٹا رہا ہے۔

صدر ٹرمپ نے پریس کانفرنس سے خطاب میں کہا: 'ہم طالبان کے ساتھ معاملات کو بہت اچھی طرح نمٹا رہے ہیں۔ طالبان کا مؤقف سخت ہے۔ وہ سمجھ بوجھ سے کام لے رہے ہیں اور بہت ہوشیار ہیں، لیکن آپ کو علم ہے کہ 19 برس گزر چکے ہیں اورحقیقت یہ ہے کہ وہ لڑائی سے تھک چکے ہیں۔'

امریکی فوج نے 11 ستمبر 2001 کو افغانستان پر حملہ کرکے طالبان کی سخت گیر حکومت کا خاتمہ کر دیا تھا۔ طالبان نے دو دہائیوں سے جاری جنگ کے خاتمے کے لیے اس ہفتے افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کر دیا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

افغان خبر رساں اداروں کے مطابق افغانستان میں تازہ ہلاکتیں ایسے وقت میں ہوئی ہیں جب ایک ہفتے سے دوحہ میں جاری مذاکرات میں فریقین متنازع معاملات کے حل لیے قواعدوضوابط کو ابھی تک حتمی شکل نہیں دے سکے۔

ان معاملات میں جنگ بندی اور مستقبل کی حکومت کا قیام  شامل ہے۔ مذاکرات میں سست روی سے ظاہر ہوتا ہے کہ افغان جنگ کے خاتمے کے لیے کی جانے والی کوششیں کس قدر مشکلات کا شکار ہو سکتی ہیں۔

بین الاقوامی میڈیا اطلاعات کے مطابق فریقوں نے دعویٰ کیا ہے کہ بات چیت کے حوالے سے بہت معاملات طے کر لیے گئے ہیں تاہم یہ رکاوٹ پیدا ہو گئی ہے کہ تنازعات کو کس اسلامی مکتبہ فکر کے تحت حل کیا جائے۔

افغانستان کے لیے یورپی یونین کے خصوصی نمائندے رولینڈکوبیا نے اقوام متحدہ کے اعدادوشمار کے حوالے سے کہا ہے کہ گذشتہ پانچ ہفتے میں افغانستان میں تشدد میں اضافہ پانچ برسوں میں سب سے زیادہ ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا