پاکستان مسلم لیگ (ن) نے وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار سے ملاقات کرنے والے پانچ اراکین صوبائی اسمبلی کو نظم وضبط کی خلاف ورزی پر پارٹی سے نکالنے کا اعلان کردیا، تاہم نکالے گئے اراکین کا کہنا ہے کہ انہوں نے کوئی خلاف ضابطہ یا غیر آئینی کام نہیں کیا۔
مسلم لیگ ن کے میڈیا سیل کی جانب سے جاری کردہ تفصیلات کے مطابق پارٹی سے نکالے جانے والے اراکین پنجاب اسمبلی میں اشرف انصاری، جلیل شرقپوری، فیصل نیازی، نشاط ڈاہا اور مولوی غیاث الدین شامل ہیں ۔
ان اراکین کے خلاف کارروائی مسلم لیگ (ن) پنجاب کے صدر رانا ثناءاللہ کے دستخطوں سے عمل میں آئی اور پارٹی سیکریٹری جنرل احسن اقبال نے اس فیصلے کا اعلان کیا۔
پارٹی نظم وضبط کی خلاف ورزی پر کارروائی کا شکار ہونے والے رکن صوبائی اسمبلی اشرف انصاری نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اپنے دیگر چار ساتھیوں کے ہمراہ وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار سے ملاقات بطور ایم پی اے کی تھی۔
ان کا کہنا تھا: ’آئینی طور پر کوئی بھی پارٹی اپنے اراکین کو قائد ایوان کے ساتھ ملاقات کرنے سے نہیں روک سکتی کیونکہ منتخب نمائندوں کو آئین قائد ایوان سے ملاقات کی اجازت دیتا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ہم نے پارٹی نظم وضبط کی کوئی خلاف ورزی نہیں کی کیونکہ یہ ملاقات ذاتی یا سیاسی مقاصد کے لیے نہیں بلکہ حلقوں میں درپیش عوامی مسائل حل کرانے کے لیے کی تھی۔ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوامی نمائندوں کے مسائل حل کرے۔‘
اشرف انصاری کے مطابق تمام پانچوں اراکین صرف یہی معاملہ لے کر وزیر اعلیٰ سے ملے تھے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ’وزیراعلیٰ سے ملنے والے کسی بھی رکن نے پارٹی چھوڑنے یا وفاداریاں تبدیل کرنے سے متعلق نہ کوئی بات کی اور نہ ہی ان کا یہ ارادہ ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ایک ایسے وقت میں جب مسلم لیگ ن کی قیادت بیرون ملک ہے، پارٹی بحرانوں سے دوچار ہے اور وفاق اور پنجاب کے اپوزیشن لیڈر حوالات میں بند ہیں تو اراکین کے خلاف ایسی کارروائیوں سے کارکنوں اور جدوجہد کرنے والوں کے حوصلے پست ہوں گے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اشرف انصاری نے کہا کہ ’ہم شوکاز نوٹسز کے جواب دے چکے لیکن کارروائی کرنے سے پہلے ہم سے کسی نے رابطہ نہیں کیا، ہم تو پنجاب اسمبلی میں بھی پارٹی پالیسیوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔‘
اس سوال کے جواب میں کہ اگر پارٹی نے سیٹیں چھڑوانے کے لیے الیکشن کمیشن سے رابطہ کیا تو کیا وہ مستعفی ہوجائیں گے؟ انہوں نے کہا: ’اس غیر آئینی اقدام پر ہم پانچوں الیکشن کمیشن میں بھی اپنا دفاع کریں گے، کیونکہ ہم نے نہ آئین کی خلاف ورزی کی ہے اور نہ ہی پارٹی نظم وضبط کے خلاف وفاداریاں تبدیل کرنے کی کوشش کی ہے۔‘
دوسری جانب ایم پی اے غیاث الدین نے کہا کہ ’پولیس نے مجھے اور میرے بیٹے کو تشدد کا نشانہ بنایا، میں وزیراعلیٰ پنجاب کو اس کی شکایت کرنے گیا تو میرے خلاف کارروائی کر دی۔‘
ان کا مزید کہنا تھا: ’میں 1997 میں بغیر ٹکٹ کے کامیاب ہوا، مجھے پارٹی کی ضرورت نہیں تھی، پھر بھی ان کے ساتھ شامل ہوئے اور کوئی فائدہ نہیں لیا۔‘
غیاث الدین کے مطابق: ’جب پارٹی پر برا وقت آتا ہے تو پارٹی قیادت خود بچوں کو لے کر باہر بھاگ جاتی ہے، ہم یہاں مقابلہ کرتے آئے ہیں اور ہمارے خلاف ہی کارروائیاں ہوتی ہیں۔‘
ساتھ ہی انہوں نے کہا: ’یہ ہمیں کیا نکالیں گے، ہم خود ان کو نکال دیں گے ہم پرانے مسلم لیگی ہیں۔‘
ایم پی اے غیاث الدین نے مزید کہا کہ پنجاب اسمبلی میں ہم ہر بل یا قراداد پر پارٹی کے ساتھ کھڑے ہوئے، پھر بھی ایسی کارروائی سمجھ سے بالاتر ہے۔
دوسری جانب فیٹف کی ووٹنگ میں غیر حاضر مسلم لیگ (ن) کے ارکان پارلیمان کو بھی شوکاز نوٹس جاری کر دیئے گئے ہیں، جن میں راحیلہ مگسی، کلثوم پروین، دلاور خان اور شمیم آفریدی شامل ہیں۔
سینیٹ میں پارٹی ارکان کو شوکاز نوٹس ایوان بالا میں قائد حزب اختلاف راجہ ظفرالحق کے دستخطوں سے جاری ہوئے اور جنرل سیکرٹری مسلم لیگ ن احسن اقبال کے مطابق شوکاز کی کارروائی کے بعد اگلے مرحلے کا فیصلہ ہوگا۔