سرکار میں سرکاری اشتہارات کی سیاست

وفاقی وزارت اطلاعات کے پالیسی سازوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ ’اتنا ہی یہ ابھرے گا جتنا کہ دباؤ گے۔‘

پاکستان کے صحافیوں کی مرکزی تنظیم پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) نے ملک میں اخبارات، نجی ٹیلی ویژن چینلز اورصحافیوں پر گذشتہ دو سال سے جاری حکومتی بندشوں اور پابندیوں کے خلاف گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسی پابندیاں تو ملک میں فوجی حکمرانوں (مارشل لا) کے زمانے میں بھی دیکھنے میں نہیں آئیں۔

تمام دنیا جانتی ہے کہ فوجی آمر جنرل ضیا الحق نے اپنی مارشل لا حکومت کے دوران مخالف اخبارات خصوصاً پیپلز پارٹی کے ترجمان مساوات کو بند کر دیا۔ جب فیڈل یونین آف جرنلسٹس نے اس اخبار سمیت پیپلز پارٹی کے ترجمان سندھی اخبار ہلال پاکستان کو بحال کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے تو جنرل ضیا نے آزادی صحافت کا مطالبہ کرنے والے صحافیوں کو کوڑوں کی سزا کے علاوہ سینکڑوں اخبار نویسوں، ایڈیٹروں، شاعروں اور ادیبوں کو جیلوں میں پھینک دیا تھا۔

یہ صحافی تنظیم جب یہ کہتی ہے کہ وزیراعظم عمران خان کی جمہوری حکومت میں اخبارات اور ذرائع ابلاغ کے دیگر ذرائع بشمول سوشل میڈیا اور اخبار نویسوں پر لگائی گئی پابندیاں مارشل لا کے دور کے ظلم و ستم اور پابندیوں سے بھی بظاہر زیادہ ہیں۔ اس دور میں اخبارات، نجی ٹیلی ویژن چینلز اور اخبار نویسوں پر کس قدر پابندیاں اور بندشیں عائد کی گئی ہیں ان کا ذکر کرتے ہوئے پی ایف یو جے نے اپنے ایک ڈیکلریشن میں کہا ہے کہ وفاقی وزارت اطلاعات کے کردار کو آئین و قانون کا پابند بنایا جائے۔

پی ایف یو جے کا یہ ڈیکلریشن گذشتہ دنوں کوئٹہ میں صحافیوں کی اس تنظیم کی وفاقی مجلس عاملہ کے تین روزہ اجلاس کے بعد جاری کیا گیا تھا۔ ڈیکلیریشن میں کہا گیا ہے کہ جب سے پی ٹی آئی کی حکومت اقتدار میں آئی ہے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے خلاف ایک منصوبہ بندی کے تحت جنگ شروع کر دی گئی ہے۔ ’اس حکومت کے ساتھ میڈیا مخالف قوتیں بھی شامل ہیں جن کا مقصد صرف یہ ہے کہ آزادی صحافت اور آزادی رائے کو مکمل طور پر سرکار کا پابند بنادیا جائے۔‘

ڈیکلریشن میں کہا گیا ہے کہ عمران خان کی حکومت میں میڈیا کے خلاف اپنی جنگ کا آغاز سب سے پہلے اخبارات اور نجی ٹی وی چینلز کو مالی نقصانات پہنچانے سے کیا۔ وفاقی مجلس عاملہ کا یہ اجلاس پی ایف یو جے کے صدر شہزادہ ذوالفقار کی صدارت میں کوئٹہ پریس کلب میں منعقد ہوا۔ اجلاس نے اس امر پر تشویش کا اظہار کیا کہ حکومت پر تنقید کرنے والے اخبارات کے صحافیوں کو سرکاری سطح پر ہراساں کیا جا رہا ہے اور ان میں سے کئی کو اغوا کر کے تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا۔ ڈیکلیریشن میں کہا گیا ہے کہ حکومت کے یہ اقدامات آئین پاکستان کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے جو کہ ہر شہری کو اظہار رائے کی ضمانت دیتا ہے۔ وفاقی مجلس عاملہ نے کہا کہ حکومت نے اخبارات اور نجی ٹیلی ویژن چینلز کو پیمرا کے ذریعے کنٹرول کر رکھا ہے اور پیمرا گاہے بگاہے نجی ٹی وی چینلز کو اپنی پابندیوں کا نشانہ بناتا رہتا ہے۔

صحافیوں کی تنظیم نے روزنامہ جنگ اور جیو کے مالک میر شکیل الرحمن کے خلاف حکومت کے غیر منصفانہ اقدامات کی مذمت کی اور کہا کہ حکومت نے جنگ اور جیو کے چیف ایڈیٹر کو ایک مبہم اور 30 سالہ پرانے سودے پر مہینوں سے جیل میں ڈال رکھا ہے۔

اس حقیقت سے کوئی شخص بھی انکار نہیں کرسکتا ہے کہ وفاقی حکومت نے اقتدار میں آتے ہی اخبارات کو معاشی مار مارنی شروع کر دی تھی۔ اس غرض سے وفاقی حکومت میں تمام قابل ذکر اخبارات اور نجی ٹی وی چینلز کو ناصرف سرکاری اشتہارات بند کر دیئے بلکہ نجی کاروباری اداروں کو بھی سرکاری دباﺅ کے ذریعے مجبور کیا گیا کہ وہ آزاد اخبارات اور ٹی وی چینلز کو اشتہارات نہ دیں۔ وفاقی حکومت میں آزاد اور قابل ذکر اخبارات کو اشتہارات کے ترسیل روک کر یہ اشتہارات مبینہ طور پر ڈمی اخبارات کو جاری کرنا شروع کر دیئے۔

حقیقت یہ ہے کہ حکومت نے ملک بھر میں ذرائع ابلاغ اور صحافیوں کا معاشی اعتبار سے گلا گھونٹ دیا ہے۔ چونکہ سرکاری اشتہارات اخبارات کے ذرائع آمدنی کا بڑا ذریعہ ہوتا ہے لہٰذا حکومت ان اشتہارات کو اخبارات کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی ہے اور جس اخبار یا ٹیلی ویژن چینل سے حکومت کو شکایت ہو تو اور وہ اس کو اپنے شرائط کار پر لانے کے لیے سرکاری اشتہارات کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی ہے۔ ایسے اخبارات اور صحافیوں کو جو حکومت کی ہدایات کو تسلیم نہیں کرتے اور حکومت کا آلہ کار بننے کے لیے تیار نہیں ہوتے ان پر سرکاری اشتہارات بند کر دیئے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ ایسے اخبارات کو مالی مشکلات کا شکار بنانے کے لیے ہر ہتھکنڈا استعمال کیا جاتا ہے۔ ان کے خلاف جھوٹے مقدمات قائم کئے جاتے ہیں اور ایسے اخبارات کے صحافیوں کو ’نامعلوم‘ افراد دن دیہاڑے اٹھا لے جاتے ہیں اور انہیں مار پیٹ کر جنگلوں میں اور ویران مقامات پر پھیک دیا جاتا ہے۔ حکومت جس اخبار کے خلاف انتقامی کارروائیوں کا فیصلہ کرچکی ہو تو اس کی وہ رقم جو اشتہارات کی مد میں حکومت کے واجب الادا ہوتی ہے اس کو بھی روک لیا جاتا ہے جس کا صاف مقصد اخبار کی اشاعت کو ناممکن بنانا ہوتا ہے۔

سرکاری اشتہارات پر وفاقی حکومت کے کنٹرول کا دفاع کرتے ہوئے وفاقی حکومت یہی کہتی ہے کہ سرکاری اشتہارات اخبارات کا حق نہیں ہیں اور یہ کہ حکومت کا صوابدید اختیار ہے کہ وہ جس اخبار یا نجی ٹیلی ویژن کو سرکاری اشہتارات دینا چاہے تو دوسروں اخبارات کو اس پر اعتراض کا کوئی حق نہیں ہے۔ حکومت جس اخبار کو سرکاری اشتہارات نہ دینا چاہے تو اس اخبار کی انتظامیہ حکومت سے نہ تو شکایت کرسکتی ہے اور نہ ہی اشتہارات کا مطالبہ کرسکتی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

حکومت کی یہ بات ایک حد تک درست ہے مگر سوال یہ ہے کہ ہر سرکاری محکمہ اور وزارت کو اپنے اشتہارات ان اخبارات یا ٹیلی چینلز کو جاری کرنے کا اختیار کیوں نہیں ہے جس کو وہ وزارت اور سرکاری محکمہ از خود میرٹ کی بنیاد پر اشاعت کے لیے جاری کرنا چاہتا ہے۔ کیوں ایسا ہو رہا ہے کہ وفاقی حکومت نے یہ تمام اشتہارات پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ کے جو کہ وزارت اطلاعات کا ایک محکمہ ہے حوالے کر رکھے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ہر محکمہ اور وزارت کا اشتہار وفاقی حکومت کے کنٹرول میں کیوں ہے؟ وزارت یا محکمہ کو از خود میرٹ کی بنیاد پر یعنی جس اخبار میں اشتہار چھاپنے سے اس وزارت یا محکمہ کا مقصد پورا ہوتا ہے وہ محکمہ اور وزارت اپنے طور پر کسی بھی مناسب اخبار یا ٹی وی چینل کو جاری کیوں نہیں کرسکتا اور کیوں اس محکمہ اور وزارت کو اپنا اشتہار پریس ڈیپارٹمنٹ انفارمیشن (پی آئی ڈی) کو بھیجنا پڑتا جو اسے اپنی ترجیحات اور حکومت کے سیاسی مقاصد کو سامنے رکھ کر جاری کرتا ہے۔

حقیقت یہ ہے ہر محکمہ اور وزارت اپنا اشتہار اپنی مرضی سے اس اخبار میں شائع کروانا چاہتا ہے جس کو وہ مناسب سمجھتا ہے مگر وفاقی حکومت نے اخبارات اور ٹی وی چینلز پر اپنا کنٹرول مضبوط کرنے کے لیے ان تمام محکموں اور وزارتوں کو ایک حکمنامہ کے ذریعے مجبور کر رکھا ہے کہ وہ اپنے اشتہارات اخبارات یا ذرائع ابلاغ میں نشر کرنے کے لیے پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ کو بھجوائیں۔

پاکستان کے تمام ذرائع ابلاغ پر وزارت اطلاعات کا کنٹرول ہے اس کے باوجود بھی صدر پاکستان اور وزیراعظم سمیت ہر سرکاری اہلکار اور وزیر کو یہ دعویٰ ہے کہ پاکستان میں صحافت اور صحافیوں کو مکمل آزادی حاصل ہے۔

پی ایف یو جے نے اپنی ڈیکلریشن میں یہ بھی کہا ہے کہ حکومت نے عملی طور پر اخبارات پر سنسر کی سی بدترین صورت پیدا کر رکھی ہے اور اخبارات پر پابندیاں لگا دی گئی ہیں مگر عمران خان کی جمہوری حکومت نے صحافت اور صحافیوں کے خلاف ایسی پابندیاں لگائیں کہ اخبارات کو حکماً بند کرنے کی بجائے ایسے حالات پیدا کر دیئے گئے کہ اخبارات کے مالکان کے لیے اخباری کارکنو ں اور صحافیوں کو بے روز گار کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں چھوڑا۔

عمران خان کی جموریت میں اخبارات اور نجی ٹی چینلز پر اپنا کنٹرول مزید مضبوط اور موثر بنانے کے لیے ایک ریٹائر جنرل عاصم سلیم باجوہ کی خدمات حاصل کی ہیں جنہیں وزیراعظم کا مشیر برائے اطلاعات مقرر کیا گیا ہے۔ اسلام آباد میں میڈیا کا ہر فرد جانتا ہے کہ وفاقی حکومت کے اشتہارات مبینہ طور پر جنرل ریٹائرعاصم سلیم باجوہ کے کنٹرول میں ہیں۔

اس تمام تر صورت حال میں وفاقی حکومت کا شاید یہ خیال ہوگا کہ وہ اپنے خلاف ہونے والی تنقید کو خاموش لر دے گی مگر ایسا نہیں ہوگا کیونکہ فطرت کا تقاضہ ہے کہ ’اتنا ہی یہ ابھرے گا جتنا کہ دبا دو گے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ